سماج

مزری بلوچستان کے باسیوں کا ایک اہم ذریعہ روزگار، حکومتی غفلت کا شکار

مزری ہر برس اکتوبر سے فروری کے دوران اگنے والا پودا ہے۔ اس سے تیار اشیاء بلوچستان کے باسیوں خصوصاﹰ خواتین کا ایک اہم ذریعہ روزگار ہیں۔ اس سے بنی ٹوکریاں پلاسٹک کے تھیلوں کا متبادل ثابت ہو سکتی ہیں۔

مزری بلوچستان کے باسیوں کا ایک اہم ذریعہ روزگار، حکومتی غفلت کا شکار
مزری بلوچستان کے باسیوں کا ایک اہم ذریعہ روزگار، حکومتی غفلت کا شکار 

کسی علاقے میں اگنے والے مخصوص نباتات اس کی ثقافت کا حصہ ہوتے ہیں اور ان کے پتے، پھول، پھل اور تنوں وغیرہ سے مختلف کار آمد اشیاء تیار کرنے کا رواج زمانۂ قدیم سے رائج ہے۔ پام (کجھور نما) فیملی سے تعلق رکھنے والے نباتات پاکستان، ایران اور افغانستان کی روز مرہ زندگی کا ایک اہم حصہ رہے ہیں، جن میں سے ایک 'نونو رہوپس ریچیانا‘یا آئیچ (مزری) بھی ہے، جو سندھ، پنجاب اور خصوصاﹰ بلوچستان میں خواتین کا ایک اہم ذریعۂ روزگار رہا ہے اسے مقامی زبان میں 'پیش‘ بھی کہا جاتا ہے۔

Published: undefined

مزری کی خصوصیات کیا ہیں ؟

Published: undefined

مزری شدید سردی اور گرمی دونوں طرح کے موسموں کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مزری خود رو ہے اور اس کی نشونما کا انحصار بارانی پانی پر ہے۔ یہ ایسے علاقوں میں بھی اگ جاتا ہے، جہاں پانی کی شدید قلت ہو۔ بلوچستان میں گوادر، اواران، مکران، لورالائی اور شاہی تمپ کے علاقے اس کی پیداوار کے لیے کافی مشہور ہیں۔ بایو میڈیکل سینٹر پاکستان کی ایک تحقیق کے مطابق ایک عام سائز کے کمپاؤنڈ میں اگنے والے مزری پودوں سے تقریباﹰ 5 کلوگرام خشک پتے حاصل ہوتے ہیں جبکہ اس کا بیر نما پھل بھی خوش ذائقہ ہوتا ہے اور بڑی تعداد میں فروخت بھی کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

مزری کی پتوں سے اشیاء کی تیاری کا عمل کیا ہے؟

Published: undefined

پسنی کی رہائشی شگفتہ خاتون نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ ان کی تین نسلیں اس پیشے سے وابستہ رہی ہیں،'' ہمارے علاقے میں خواتین مزری کے پتوں سے چٹائیاں، ٹوپیاں، جائے نماز، ٹوکریاں اور دیگر آرائشی و روز مرہ استعمال کی اشیاء تیار کرنے میں خاصی مہارت رکھتی ہیں۔ ان کو دیگر علاقوں میں بھی فروخت کیا جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے لیے سب سے پہلے مزری کے خشک پتوں کو پانی میں بگھویا جاتا ہے اور پھر انہیں تقریباﹰ 12 گھنٹوں کے لیے زمین میں گڑھا کھود کر اس میں رکھ دیا جاتا ہے تاکہ پتے مزید نرم ہو جائیں،''اس کے بعد ہم ہاتھوں سے بنائی کرتے ہوئے ان سے دیدہ زیب اشیاء تیار کرتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

مزری کی کمرشل اہمیت کتنی ہے؟

Published: undefined

بلوچستان میں اواران، مکران اور اس سے ملحقہ پہاڑی علاقے مزری کی کاشت کے لیے خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صوبے میں 65 فیصد افراد مزری کے پتوں سے تیار کردہ اشیاء کے پیشے سے وابستہ ہیں، جن میں اکثریت دیہی خواتین کی ہے۔ اواران ضلع جھارو کے رہائشی شبیر رخشانی کہتے ہیں کہ ایک عشرے پہلے تک ان علاقوں کے رہائشی مزری کی کمرشل اہمیت سے واقف نہیں تھے،'' 2015/16 میں بلوچستان رورل سپورٹ، نیشنل رورل سپورٹ پروگرام اور سسٹین ایبل لینڈ مینجمینٹ پروگرام کے تحت مقامی افراد کے لیے تربیتی سیشنز منعقد کیے گئے، جن میں انہیں سکھایا گیا کہ مزری کے پتوں کی صفائی کے مراحل کے دوران مشینیں کس طرح استعمال کی جاتی ہیں اور ساتھ ہی انہیں مشینیں بھی فراہم کی گئیں مگر دیہی علاقوں میں روزانہ 8 سے 10 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کے باعث یہ مشینیں ناکارہ پڑی ہیں۔

Published: undefined

اس پیشے سے وابستہ افراد کو کن مسائل کا سا منا ہے؟

Published: undefined

پسنی کی رہائشی شگفتہ بی بی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''چند سال قبل تک ہمارے خاندانوں میں شاید کوئی ایسی لڑکی ہوتی تھی، جسے مزری سے اشیاء تیار کرنا نہ آتی ہوں مگر اب تعلیمی رجحان بڑھنے کے باعث نوجوان لڑکیاں یہ فن سیکھنے میں دلچسپی نہیں لیتیں۔‘‘ ان کے بقول دوسرا یہ کہ بارشوں کی کمی کے باعث بھی مزری کی پیداوار شدید متاثر ہوئی ہے اور اب بازار سے اس کے خشک پتے خریدنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ اواران اور مکران کے باسیوں نے بھی اسی طرح کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ''ذرائع آمدورفت کی کمی کے باعث ہمیں مارکیٹ تک رسائی میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ حکومت اس جانب توجہ دے اور ہمیں مناسب سہولیات فراہم کی جا ئیں۔‘‘

Published: undefined

مزری پلاسٹک کی آلودگی پر قابو پانے میں مددگار

Published: undefined

پلاسٹک کی آلودگی دنیا بھر میں ابھرتا ہوا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، جس نے سب سے زیادہ شہروں میں نکاسی آب کے نظام کو متاثر کیا ہے۔ گوادر اور پسنی کے ساحلوں پر پلاسٹک کی بڑھتی ہوئی آلودگی کے باعث نایاب نسل کے سبز اور زیتونی کچھوے ناپید ہوتے جا رہے ہیں جبکہ دیگر آبی حیات بھی شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ پلاسٹک کی اشیاء میں سب سے زیادہ پلاسٹک کے تھیلے یا شاپر استعمال ہوتے ہیں، جو روزمرہ زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں۔

Published: undefined

روجھان جمالی کے رہائشی ببرک کارمل نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ بچے تھے تب سے ان والد اور دادا کھجور یا مزری کے پتوں کی بنی ٹوکریوں میں سودا سلف لایا کرتے تھے، جنہیں مقامی زبان میں ''چھکو‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے بقول اگر ان ٹوکریوں کو پلاسٹک کے تھیلوں کی جگہ استعمال کرنے کی عادت ڈا لی جائے تو ایک طرف آلودگی اور موسمی تبدیلیوں میں بھی کمی آئے گی جبکہ دوسری جانب صوبے میں بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع بھی دستیاب ہوں گے مگر اس پراجیکٹ کو حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

اس حوالے سے رائے جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے متعلقہ سرکاری محکموں سے رابطہ کیا مگر سرکاری دفتروں میں کئی ہفتوں سے جاری ہڑتال کے باعث کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined