جرمن شہریوں کی اکثریت نے ہفتے میں چار دن کام کرنے کے تصور کی مخالف ہے۔ اس بارے میں شائع ہونے والے ایک سروے کے نتائج کے مطابق جرمنی میں رہنے والے پچپن فیصد لوگ پوری تنخواہ پر ہفتے میں چار دن کام کرنے کو عملی نہیں سمجھتے۔ زیادہ تر صنعتی ممالک میں ہفتے میں چار دن کام کرنے کا رواج ہے اور جرمنی میں یہ حالیہ دنوں میں بہت سے آزمائشوں کا موضوع رہا ہے۔
Published: undefined
جرمنی میں آئی جی میٹل ورکرز یونین، یورپ کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین، اس ماڈل کو متعارف کرانے کی تجویز دینے والی تنظیموں میں شامل ہے۔
Published: undefined
اشٹرن میگزین کے لیے فارسا پولنگ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے کروائے گئے اس سروے سے ظاہر ہوا کہ جرمنی کی مشرقی ریاستوں کے باشندے، جو پہلے کمیونسٹ جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک میں تھے، اس خیال کے بارے میں سب سے زیادہ شکوک و شبہات میں مبتلا تھے۔ ان میں سے باسٹھ فیصد نے چار روزہ ورک ویک متعارف کرانے کی مخالفت کی جبکہ مغربی ریاستوں میں چون فیصد افراد نے اس خیال کی مخالفت کی۔
Published: undefined
اس سروے نے یہ بھی ظاہر کیا کہ اس معاملے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے حامیوں کے درمیان وسیع پیمانے پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر تحفظ ماحولیات کی چمپئین گرین پارٹی کے ووٹر کام کے چار روزہ ماڈل کے خواہشمند تھے۔ گرین پارٹی کے انہتر فیصد حامیوں نے اس ماڈل کی حمایت جبکہ انتیس فیصد نے اس کی مخالفت کی۔ چانسلر اولاف شولس کے سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹس کی (ایس پی ڈی) کے حامی زیادہ تر اس خیال کے خلاف تھے اور صرف تینتالیس فیصد نے اس کی حمایت اور تریپن فیصد نے اس کی مخالفت کی۔
Published: undefined
سب سے سخت مزاحمت ان لوگوں کی طرف سے ہوئی جو نیو لبرل فری ڈیموکریٹس (ایف ڈی پی)کے حامی ہیں۔ یہاں چھہتر فیصد نے کام کے ہفتے کو ایک دن مختصر کرنے کے تصور کو ناپسند کیا اور صرف پچیس فیصد ہی زیادہ فارغ وقت کے حق میں تھے۔
Published: undefined
عمومی طور پر اس خیال کی حمایت کرنے والے افراد نے اس بارے میں دوسرے یورپی ممالک میں ہونے والے ٹرائلز کے نتائج کا حوالہ دیا، جہاں پر ورکروں میں تناؤ کی سطح میں کمی اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ظاہر ہوا۔
Published: undefined
اس خیال کی مخالفت کرنے والوں کی رائے یہ تھی کہ اس طرح کاروباری اداروں کو مالی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اگر کوئی ضروری کام کرنے کے لیے صرف چند گھنٹے ہی میسر ہوں تو وہ کام مکمل نہیں ہو پائے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined