سماج

ایمسٹرڈم کے رہائشی سیکس اور گانجے کے لیے آنے والوں سے تنگ

ایمسٹرڈم کے مقامی شہری صرف سیکس اور گانجے کے لیے اس شہر کا رخ کرنے والوں سے تنگ آ چکے ہیں اور حکام پابندی پر غور کر رہے ہیں۔ ڈچ عوام چاہتے ہیں کہ سیاح ونسنٹ فاخ گوخ ہاؤس اور نہریں دیکھنے یہاں آئیں۔

ایمسٹرڈم کے رہائشی سیکس اور گانجے کے لیے آنے والوں سے تنگ
ایمسٹرڈم کے رہائشی سیکس اور گانجے کے لیے آنے والوں سے تنگ 

ایمسٹرڈیم کو منفرد ڈچ ثقافت، طرز تعمیر اور اس کی خوب صورت نہروں کی وجہ سے تو جانا ہی جاتا ہے مگر ہالینڈ کے اس شہر کی مقبولیت کی ایک اور وجہ گانجے کا استعمال بھی ہے۔ ایمسٹرڈیم میں کئی خصوصی کیفے اور 'کافی شاپس‘ ہیں جہاں لوگ ایک محدود مقدار میں گانجے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اس شہر کی یہی خصوصیت یورپ بھر سے سیاحوں کو یہاں کھینچ لاتی ہے۔ لیکن اب شاید یہ صورتحال تبدیل ہونے کو ہے۔

Published: undefined

ایمسٹرڈیم کی میئر فیمکے ہیلسیما نے اس سال ایک تجویز پیش کی تھی کہ غیر ملکیوں کا 'کینیبس کیفیز‘ میں داخلہ اور انہیں گانجے کی فروخت بند کر دی جائے۔ اس کا مقصد اس شہر کی ساکھ کو بدلنا تھا۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ مقامی افراد ان سیاحوں سے تنگ آ چکے ہیں جو گانجے کا استعمال کر کے سڑکوں پر شور شرابا کرتے ہیں اور ہر طرف گندگی پھیلاتے ہیں۔ اس تجویز کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ قدم کا مقصد ایمسٹرڈیم آنے والے سیاحوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔

Published: undefined

دوسری جانب کیفے مالکان اور ملازمین اس تجویز کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ ایوو مکگوائر 'کافی شاپ ریفر‘ میں ملازمت کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''اگر کافی شاپس میں سیاحوں پر پابندی لگی، تو ہمارے 80 فیصد گاہک ختم ہو جائیں گے۔‘‘

Published: undefined

کورونا کی وبا اور گانجے کا کاروبار

کورونا کی وبا کے آغاز سے قبل کے کچھ برسوں میں سالانہ بیس ملین سیاح ایمسٹرڈیم کا رخ کرتے تھے۔ اب جبکہ بیشتر پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں، ایمسٹرڈیم میں سیاحوں کی تعداد اب بھی بہت کم ہے۔ اسی صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے ایوو مکگوائر بتاتی ہیں، ''ڈچ لوگ کافی شاپس میں تفریح نہیں کرتے۔ ڈچ لوگ گانجا اپنے گھر لے جا کر استعمال کرتے ہیں۔ کافی شاپس میں بیٹھ کر مزے کرنے والے عموما سیاح ہی ہوتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

’ایمسٹرڈیم کینیبس میوزیم‘ کے مینیجر گیری گیلیہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ کورونا پابندیوں کے خاتمے کے بعد بھی آمدنی پہلے کے مقابلے میں آدھی رہ گئی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ایمسٹرڈیم کی کافی شاپس میں غیر ملکی سیاحوں کی وجہ سے جتنی آمدنی ہوتی ہے، اسے مد نظر رکھتے ہوئے یہ پابندی لگ ہی نہیں سکتی۔

Published: undefined

اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ گیری گیلیہر کے مطابق، ''جب کورونا پابندیوں کے تحت ایمسٹرڈیم میں کافی شاپس کو بند کرایا گیا، تو منشیات فروش متحرک ہو گئے اور ہر گلی کوچے میں اپنی اشیا بیچنے لگے۔ اسی لیے حکام نے چند ہی دنوں میں فیصلہ واپس لے لیا۔‘‘

Published: undefined

شہری انتظامیہ نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک منفرد حل تلاش کر لیا ہے۔ ایمسٹرڈیم دنیا کا پہلا ایسا شہر ہے، جہاں سیاحوں کی سالانہ حد مقرر کر دی گئی ہے۔ شہری انتظامیہ 'ٹورسٹ کوٹہ‘ متعارف کرا چکی ہے، جس کے تحت سیاح سالانہ حد سے حد بیس ملین راتیں ایمسٹرڈیم میں گزار سکتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined