انہیں یہ بھی اندازہ ہے کہ جو لڑکیاں پیچھے دائرے میں رہ گئی ہیں، ان کے لیے راستے کیسے ہموار کرنے ہیں۔ اس راستے پہ چلنے کے لیے انہوں نے سائیکل کا انتخاب کیا ہے۔ یہ سائیکل شعور کے کارخانوں میں سلیقہ مندی سے تیار ہوئی ہے۔ سائیکل کے ہنڈل پہ ایک طرف لالٹین دوسری طرف کتابوں سے بھری ایک تھیلی لٹک رہی ہے۔ اس میں ارتقا کے پہیے نصب ہیں، جس کی رفتار میں ایک تدریج ہے اور ترتیب ہے۔
Published: undefined
یہ سائیکل بغیر کسی شور شرابے کے وقت کی پگڈنڈیوں سے گزر رہی ہے اور جہاں سے گزرتی ہے کچھ سوال چھوڑ جاتی ہے۔ یہ سوال خود مختاری کی طرف ہلکا سا ایک اشارہ کرتے ہیں۔ یہ اشارہ روایت کی فرسودہ دیواروں میں ایک دراڑ ڈالتا ہے، جو دھیرے دھیرے ایک شگاف میں بدل جاتا ہے۔ اس شگاف سے گزر کر روشنی گھر کے اندر اترتی ہے اور رواجوں میں بندھی ہوئی ایک لڑکی کو چپکے سے ایک راستہ بتاتی ہے۔ ایک راستہ، جو زندگی کی طرف نکلتا ہے۔
Published: undefined
جاپانی ناول Twenty-four Eyes (چوبیس آنکھیں) آپ نے پڑھا ہو گا۔ اس ناول میں مچھیروں کی ایک بستی ہے، جس کے خارجی راستے پر الوداع اور داخلی راستے پر خوش آمدید لکھا ہوا ہے۔ یہاں سے نوجوانوں کو جنگی ترانوں کی گونج میں مقدس جنگ کے لیے بھیجا جاتا ہے اور ترانوں کی ہی گونج میں لاشوں کی صورت وصول کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
یہاں جھیل کنارے ایک سکول ہے، جس میں بارہ بچے پڑھتے ہیں۔ اساتذہ کے لیے یہ بچے محض بارہ دماغ ہیں مگر ایک جواں سال اُستانی کے لیے وہ چوبیس آنکھیں ہیں۔ اساتذہ بارہ دماغوں کو جذبہ شہادت سے روشناس کرانا چاہتے ہیں مگر استانی آنکھوں کی چوبیس کٹوریوں میں زندگی کے دیپ جلانا چاہتی ہے۔
Published: undefined
استانی دو میل دور سے سائیکل پر پڑھانے آتی ہے۔ پہلی بار اس کی سائیکل بستی میں زن زن کرتی ہوئی گزری تو حیرت کی ہوائیں چل گئیں۔ سکول پہنچی تو طالب علموں کے لیے بھی یہ ایک نئی بات تھی۔ لڑکوں نے ہنس کر جنس آلود جملوں کا باہم تبادلہ کیا۔ ماڈرن ہے، مغرب زدہ ہے، بے شرم ہے، بدکار ہے۔ لڑکیوں کے جملے بالکل مختلف تھے۔ کچھ جملے تو وہ تھے جو انہوں نے گھر سے سیکھے تھے۔ جیسے، ''اس کے بال دیکھو اس کے کپڑے دیکھو‘‘۔ کچھ جملے وہ تھے، جو ان کے دل سے نکل رہے تھے۔ جیسے ''کاش میں بھی سائیکل چلا سکوں۔ سڑک پر یوں تیزی سے جاتے ہوئے کتنا مزا آتا ہوگا نا‘‘۔
Published: undefined
سائیکل کی زبان نہیں تھی کہ وہ کچھ کہتی مگر سائیکل کا ایک تاثر تھا، جو اس نے بچیوں کے ذہن پر چھوڑ دیا۔ یہ آزادی، برابری اور خود انحصاری کا تاثر تھا۔ انہیں احساس ہوا کہ یہ سڑکیں، جو صرف مردوں کی ہیں، ہم سائیکل دوڑا کر اس میں سے اپنا حصہ وصول کر سکتی ہیں۔ حقوق کی جنگ میں مرد کو بہت کچھ ہاتھ سے نکل جانے کا خوف ہوتا ہے۔ عورت کو بہت کچھ واپس ہاتھ آنے کا یقین ہوتا ہے۔ دونوں کا احساس ایک نہیں ہے تو تبصرے ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں؟
Published: undefined
پاکستان مچھیروں کی وہی جاپانی ناول والی بستی ہے۔ اس کے داخلی اور خارجی راستے پختونخوا سے نکلتے ہیں۔ ان راستوں سے گزار کر جوانوں کو جنگوں میں جھونکا جاتا ہے، انہی راستوں سے ان کی لاشیں وصول کی جاتی ہیں۔ یہاں ماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہادت کی پرورش کے لیے بچوں کو جنم دیں۔ وہ صرف لاش وصول کر سکتی ہیں، جنازہ پڑھ سکتی ہیں اور نہ قبرستان جا سکتی ہیں۔ یہاں کے درس گاہوں میں بھرتی کے اساتذہ موت کی فضائل پڑھا رہے ہیں اور کچھ لڑکیاں سائیکل کے پینڈل گھماکر زمانے کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
Published: undefined
سائیکل لنڈی کوتل سے گزر رہی ہے تو نئی بات سے ڈرنے والے پرانے لوگوں نے بینر اٹھا لیے ہیں ''عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے‘‘۔ ذرا سا آگے بنوں میں انہی لوگوں نے خواتین سے ایک ایسے پارک تک میں جانے کا حق چھین لیا ہے، جس کے دروازے پر ''فیملی پارک‘‘ لکھا ہوا ہے۔ اسی علاقے کا واقعہ ہے، جب ایک مذہبی رہنما سے پوچھا گیا کہ ''آپ کے دھرنے میں خواتین کیوں نہیں ہیں؟‘‘۔ قہقہہ لگاکر بہت رعونت سے انہوں نے کہا، ''اپنی خواتین کی نمائندگی کے لیے ہم کافی ہیں‘‘۔
Published: undefined
اٹھارویں صدی تک مغرب کا قانون بھی یہی کہتا تھا کہ شوہر کا ووٹ اس کی بیوی کی نمائندگی کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس فرسودہ خیال کو آخری ضرب لگانے کے لیے، جب عورتیں دنیا بھر میں نکلیں تو کچھ لڑکیاں برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے بھی پہنچیں۔ پارلیمنٹ کے ایک ممبر نے کہا، ''تمہارا درست مقام تمہارا گھر ہے‘‘۔ طنز ارزاں کرتے ہوئے بولا، برتن دھونے کا کام ہی تم لوگ ٹھیک سے کرسکتی ہو، وہی کیا کرو۔ ایک باغی لڑکی نے آگے بڑھ کر کہا، ''بلاشبہ برتن دھونا تو ہمیں ہی آتا ہے۔ برتن دھونے ہی تو ہم گھر سے نکلی ہیں۔ ہم ایک ایک برتن کو ٹھیک سے مانجھ کر چھوڑیں گے، ان برتنوں کو بھی جو اس پارلیمینٹ کے اندر پڑے ہیں‘‘۔
Published: undefined
اگلی صدی نے دیکھا کہ راستہ روکنے والوں کا فرسودہ فکری مواد تاریخ کے کوڑے دان میں چلا گیا اور سائیکل پر آنے والی لڑکیاں وہ سارا میل صاف کرنے پارلیمنٹ پہنچ گئیں، جو صدیوں سے آئین اور قانون کے برتنوں پر جما ہوا تھا۔ ہمیں کھینچ کر پچھلی صدیوں میں لے جایا گیا ہے مگر اگلی صدی کا نوشتہ بھی آس پاس کی دیواروں پر ابھر رہا ہے۔ ارتقاء کے کچے پکے راستوں پر سائیکلیں اتر چکی ہیں۔ استقامت اور حوصلے کے مدار میں جب یہ سائیکلیں اپنا چکر پورا کر لیں گی تو پیچھے مڑ کر دیکھیے گا۔
Published: undefined
عورت کے ''اصل مقام‘‘ کا تعین کرنے والے بینروں سے بچے سائیکلوں پر پڑی دھول جھاڑیں گے اور راستہ روکنے والوں کی اپنی بیٹیاں گھروں سے نکل کر نئی صبحوں اور نئی شاموں کا دستور لکھیں گی۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: محمد تسلیم