سماج

درست خبر ہے یا فیک نیوز، پتا کیسے چلایا جائے؟

بات کووِڈ انیس ہو یا ماحولیاتی تبدیلیاں، مہاجرت ہو یا کوئی اور موضوع، سوشل میڈیا پر حقائق کے مقابلے میں فیک نیوز چھ گنا زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔ سوال یہ ہےکہ اس کی شناخت کیسے ہو؟

درست خبر ہے یا فیک نیوز، پتا کیسے چلایا جائے؟
درست خبر ہے یا فیک نیوز، پتا کیسے چلایا جائے؟ 

گرین پارٹی کی سربراہ اور تب چانسلر کے عہدے کی امیدوار (موجودہ وزیرخارجہ) انالینا بیربوک کے نام سے موسوم ایک بیان اپریل میں فیس بک پر گردش کرتا رہا اور وہ تھا کہ گرین پارٹی اقتدار میں آ کر پالتو جانور رکھنے پر پابندی لگا دے گی، کیوں کہ وہ بہت زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ بناتے ہیں۔

Published: undefined

برازیل میں سن 2018 کے انتخابات کے دوران واہٹس ایپ کے ذریعے دائیں بازو کے عوامیت پسند لیڈر جیئر بالسونارو کے حق میں لاکھوں پیغامات ارسال کیے گئے۔ ان پیغامات میں سے ایک پیغام یہ تھا کہ بائیں بازو کی ورکرز پارٹی کمیونسٹ آمریت کا منصوبہ بنا رہی ہے جب کہ بچوں کے ساتھ جنسی تعلقات کو قانونی بنانا چاہتی ہے۔

Published: undefined

کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دنوں میں بھی ایسی''طبی ماہرین‘‘کی ویڈیوز اور پوسٹس کی بھرمار نظر آئی، جو سائنسی حقائق کے یک سر متضاد باتیں کر رہے تھے اور ایسی ویڈیوز کئی بار وائرل بھی ہوئیں۔ ان تمام میں کیا بات مشترک ہے؟ یہ تمام فیک نیوز ہیں اور غلط اطلاعات پر مبنی ہیں۔ یہ یا تو سراسر بے بنیاد ہیں یا جان بوجھ کو لوگوں کے سیاسی خیالات کو متاثر کرنے کی کوشش ہیں، یا پھر زیادہ سے زیادہ کلکس حاصل کرنے کی کوشش۔

Published: undefined

فیک نیوز عموماﹰ بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور آج کی ڈیجیٹل دنیا میں ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین ایسے میں قابل اعتبار خبر سے اسے الگ کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کئی مضامین شائع کر چکا ہے۔

Published: undefined

ہوشیار رہیے

آکسفورڈ یونیورسٹی کے روئٹرز انسٹیٹیوٹ کی تازہ ڈیجیٹل نیوز رپورٹ کے مطابق ایک سروے میں نصف سے زائد افراد نے بتایا کہ انہوں نے کورونا وائرس سے متعلق حال ہی میں ایک گم راہ کن یا جھوٹی خبر دیکھی ہے۔

Published: undefined

کسی خبر کے درست یا غلط ہونے کی جانچ کے لیے کچھ پیمانے سمجھنے ضروری ہیں، پہلا یہ کہ اس خبر کا منبع کیا ہے یا کوئی بات کہنے والا ہے کون؟ دوسرا یہ کیا کہ یہ خبر ممکن بھی ہے؟ یا کیا کہی جانے والی بات کی کوئی منطق بنتی ہے؟ اور میرے یہ خبر آگے شیئر کرنے سے فائدہ کسے ہو گا؟

Published: undefined

فیک نیوز کے پیچھے کون؟

فیک نیوز عموماﹰ فیس بک، ٹوئٹر یا انسٹاگرام کی کسی پوسٹ کے ذریعے صارفین تک پہنچتی ہے۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ خبر دینے والے پر نگاہ کی جائے۔ خبر دینے والے کی دلچسپیاں اور خیالات خود آپ پر بہت کچھ آشکار کر دیں گے۔ ان میں سے کئی اکاؤنٹ تو ممکن ہے سوشل بوٹس یا ٹرولز چلا رہے ہوں۔

Published: undefined

واہٹس ایپ جیسی میسنجر سروسز کے ذریعے جھوٹی اور من گھڑت اطلاعات پھیلانا ایک اور طریقہ کار ہے۔ برازیلین انتخابات میں واہٹس ایپ کے ذریعے فیک نیوز کے پھیلاؤ کا غیرمعمولی طریقہ کار دیکھنے میں آیا۔ واہٹس ایپ سے میسج آپ تک پہنچے، تو اسے آگے پھیلانے سے پہلے بھیجنے والے سے یہ پوچھ لیں کہ یہ پیغام اسے کس نے بھیجا۔ زیادہ تر واقعات میں آپ دیکھیں گے کہ بھیجنے والا اس پیغام کے منبع سے واقف نہیں ہو گا اور اسے فقط یہ مسیج فارورڈ کیا ہو گا۔

Published: undefined

دعویٰ واقعی سچ بھی ہے؟

انتہائی ضروری ہے کہ کسی فاورڈ مسیج یا کسی اور ٹیکسٹ کو درست ماننے سے قبل اس پر ناقدانہ نگاہ ڈالیں اور اس سلسلے میں اہم سوال یہ اٹھائیں کہ کیا کہی جانے والی بات یا دکھائی جانے والی تصویر واقعی حقیقی بھی ہیں؟ مثال کے طور پر گرین پارٹی کی بیربوک کے حوالے سے پالتو جانوروں سے متعلق بیان۔ فقط اس دعوے کے حقیقی ہونے پر سوال اٹھایا جائے، تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے ک یہ ایک فیک نیوز ہے۔

Published: undefined

بغیر تصدیق کے خبر فارورڈ کرنے سے گریز کریں

کسی اطلاع یا خبر کی صورت میں کسی باقاعدہ ادارے یا عہدیدار کے ذریعے اس اطلاع کے بااعتبار ہونے کی تصدیق کریں۔ مثال کے طور پر کورونا سے متعلق معلومات کی تصدیق عالمی ادارہ صحت، جانز ہاپکنز یونیورسٹی یا رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ یا کسی اور سائنسی اور تحقیقی ادارے کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ لیکن اپنے آپ کو میڈیکل ماہرین کہنے والے افراد کی فیس بک یا یوٹیوب ویڈیوز کو بغیر تصدیق کے درست سمجھنا اور پھر انہیں آگے پھیلا دینا خوف ناک عمل ہے۔

Published: undefined

حقائق کی جانچ کرنے کے لیے FackCheck.org سمیت Snopes اور full Fact جیسی ویب سائٹ آپ کی مدد کر سکتی ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined