سماج

انٹرنیٹ کی تاریک دنیا ‘ ڈارک نیٹ‘ کیسے کام کرتی ہے؟

انٹرنیٹ پر ایک اور دنیا بھی موجود ہے، جو ڈارک ویب کہلاتی ہے۔ ڈارک ویب کیا ہے؟ اور کس طرح کام کرتا ہے؟ اس بارے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد زیادہ معلومات نہیں رکھتی۔

انٹرنیٹ کی تاریک دنیا ' ڈارک نیٹ‘ کیسے کام کرتی ہے؟
انٹرنیٹ کی تاریک دنیا ' ڈارک نیٹ‘ کیسے کام کرتی ہے؟ 

ڈارک ویب ایک ایسا حساس موضوع ہے، جسے میڈیا میں کبھی نمایاں جگہ نہ مل سکی۔ ڈارک ویب ورلڈ وائڈ ویب کا ایک ایسا حصہ ہے جس تک پہنچنے کے لیے خصوصی سافٹ ویئر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈارک ویب جرائم کی وہ دنیا ہے، جہاں قانون کے ادارے بھی نہیں پہنچ پاتے۔ کیونکہ انٹرنیٹ کے اس گھناؤنے کاروبار سے ہوشربا پیسہ اور کمائی منسلک ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کاروبار سے دنیا کی بہت طاقتور ہستیاں بھی جڑی ہیں۔

Published: undefined

اسلحہ کی فروخت، منشیات کے کاروبار کے علاوہ خواتین، مردوں اور بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کی ویڈیوز یہاں اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی غیر قانونی مارکیٹ کی طرح ہے۔ استحصال کی ویڈیوز کی خرید و فروخت اور نمائش جیسی سرگرمیاں ڈارک ویب کے وجود کی ضامن ہوتی ہیں۔ عام افراد گوگل پران پوشیدہ سرگرمیوں کو سرچ نہیں کر سکتے۔ صرف وہی افراد ان ویب سائٹس تک پہنچ سکتے ہیں جن کا تعلق انٹرنیٹ جرائم کی اس دنیا سے ہو یا پھر وہ اس کمیونٹی کا حصہ ہوں۔ یہ ویب سائٹس فائر والز کے پیچھے چھپی ہوتی ہیں۔

Published: undefined

ڈارک ویب ڈیپ ویب کا ایک حصہ ہے۔ ڈارک ویب پر اجرتی قاتل بھی دستیاب ہوتے ہیں اور اپنی نفسانی و نفسیاتی تسکین کی خاطر قتل کروانے والے گروہ بھی۔ ایک اندازے کے مطابق عام لوگوں کی رسائی صرف سولہ فیصد ویب سائٹس تک ہے جبکہ باقی تمام ڈارک ویب پر مشتمل ہیں۔ اگر آپ ڈارک ویب کی سائٹ کھول بھی لیں تو آپ یہ پتہ نہیں چلا سکتے کہ اس کو کون چلا رہا ہے یا ا س کے پیچھے کون سا مافیا کام کر رہا ہے۔

Published: undefined

ڈارک ویب نے منشیات خریدنے والوں کا کام بہت آسان کر دیا ہے ایسے لوگ جو سرعام یا کسی گلی کوچے یا کسی ایجنٹ کے ذریعے منشیات خریدنے کا کشت نہیں اٹھانا چاہتے وہ بھی منشیات کی خریدای کے لیے ڈارک ویب کا استعمال کرتے ہیں۔ اس ویب کو استعمال کرنے والوں میں نوجوانوں اور طالب علموں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ کیونکہ یہاں لین دین پوشیدہ ہوتا ہے اور پکڑے جانے کا ڈر بھی نہیں ہوتا۔

Published: undefined

بٹ کوائن کا زیادہ استعمال ڈارک ویب میں کیا جاتا ہے۔ منشیات، جعلی پاسپورٹ یا فحش مواد کی خرید و فروخت بٹ کوائن کے ذریعے کی جاتی ہے۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا میں سب سے تیزی سے پھیلنے والی کیٹیگری ہے۔ کریڈٹ کارڈز کی معلومات ہیک کر کے یہاں بہت سستے داموں بیچی جاتی ہے۔

Published: undefined

کیا سہیل ایاز کا تعلق بھی ڈارک ویب سے ہے؟ سہیل ایاز کون ہے؟ وہ کہاں کام کرتا رہا؟ اس کو کس نے ملازمت پر رکھا کوئی بھی یہ ذمے داری لینے کو تیار نہیں۔ یہ بات اب ایک معمہ بن چکی ہے کیونکہ پاکستان میں ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر مسٹر اللانگو پٹچھاموتو نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ سہیل ایاز کبھی بھی ورلڈ بینک کا ملازم نہیں رہا۔ بلکہ اس کو خیبر پختونخواہ حکومت نے بطور کنسلٹنٹ ملازمت پر رکھا تھا۔ لیکن مسٹر الانگو کی ٹویٹ پر چند پاکستانی صحافیوں نے سوال اٹھائے کہ ورلڈ بینک کی ویب سائٹ پر سہیل ایاز کا نام موجود ہے لہذا آپ اس سے مبرا نہیں ہو سکتے اس سلسلے میں ورلڈ بینک کی ویب سائٹ کے وہ حصے سکرین شارٹس کی صورت میں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیے گئے جن پر سہیل ایاز کا نام موجود ہے۔

Published: undefined

انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ سہیل ایاز ورلڈ بینک کا مشیر تھا اور مالی اعانت فراہم کرنے والی تنظیمیں اس طرح کے عہدوں پر خدمات حاصل کرنے کی ذمے دار ہیں۔ تاہم اداروں کو اپنے قواعد میں ایک شق داخل کرنا چاہیے تاکہ ایسے افراد کی ملازمت پر پابندی عائد کی جا سکے۔

Published: undefined

پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات آئے روز رپورٹ ہوتے ہیں لیکن یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جس میں مبینہ ملزم ایک ہائی پروفائل شخص ہے۔ ذرائع کے مطابق بچوں کے مبینہ جنسی استحصال کے بعد اٹلی بھاگنے والا سہیل ایاز برطانیہ پہنچا توسیو دی چلڈرن میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن بلاآخر پکڑا گیا اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مقدمے میں چار سال تک جیل کاٹی۔ اور اس کے بعد برطانیہ نے اسے ملک بدر کر دیا۔

Published: undefined

تاہم یہ پاکستان آ کر بھی خیبر پختونخواہ میں بطور کنسلٹنٹ ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور تین لاکھ تک تنخواہ وصول کرتا رہا۔ خیبر پختونخواہ میں سہیل ایاز کو کس کے کہنے پر نوکری دی گئی اس بارے میں تضاد پایا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ معلوم بھی ہو جائے کہ نوکری کے لیے اس نے کس کو درخواست دی یا کس کی مدد حاصل کی تب بھی یہ ضروری نہیں کہ اس کو ملازمت پر رکھنے والوں کو یہ معلوم ہو کہ سہیل ایاز کا ماضی کیا ہے۔ لیکن حکومت کو اس سے مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ بہرحال ملازمت کے امیدواروں کی چھٹنی کا کام حکومتی محکمے کی ہی ذمے داری ہوتے ہے۔

Published: undefined

اس سلسلے میں سی پی او راولپنڈی فیصل رانا کا کہنا تھا کہ اگر سہیل ایاز برطانیہ میں قید کاٹ چکا ہے تو اس کا نام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے راڈار پر ہونا چاہیے تھا۔ وہ برطانیہ میں سزا پوری کاٹ چکا تھا اور جب سزا پوری کر لی جائے تو پھر وہاں کی حکومت کو مجرم مطلوب نہیں ہوتا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو اس کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں اور نہ ہی اس پر نظر رکھنے کو کہا گیا۔ نہ ہی یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ یہ دوبارہ سے اس قسم کی حرکت کر سکتا ہے۔

Published: undefined

پاکستان میں سہیل ایاز کا نام اس وقت منظر عام پر آیا جب ایک خاتون نے اس کے خلاف اپنے تیرہ سالہ بیٹے کو اغوا کرکے نشہ آور ادویات کے استعمال اور چار دن تک زیادتی کا نشانہ بنانے کا مقدمہ درج کرایا۔ ایف آئی آر میں درج ہے کہ مجرم نے بچے کو ڈرایا دھمکایا کہ اگر اس نے زبان کھولی یا کسی کو بتایا تو اس کی ریکارڈ کردہ فحش ویڈیوز منظر عام پر لائی جائیں گی۔ تفتیش کے بعد سی پی او راولپنڈی نے انکشاف کیا کہ سہیل ایاز نے تیس سے زائد بچوں کے اغوا اور ان کے ساتھ زیادتی کا اعتراف کر لیا ہے۔ بلکہ اس نیٹ ورک کے بارے میں بھی تفصیلات فراہم کی ہیں جو ڈارک ویب پر بچوں کے جنسی استحصال کی فلمیں بناتے یا فروخت کرتے ہیں۔

Published: undefined

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے اس سوال کے جواب میں کہ معاشرے سے اس ناسور کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ کہا، '' یہ بہت ہی غیر صحتمند سماج ہے۔ یہاں سیاسی موضوعات زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ بہت معذرت کے ساتھ ایسے واقعات نہیں رکیں گے۔ کیونکہ ریاست اور سماج ایسے معاملات میں سنجیدہ نہیں‘‘۔

Published: undefined

سوال یہ ہے کہ ایسے جرائم پیشہ افراد کی معلومات کا ممالک کے بیچ اشتراک کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیا اس بارے میں انسانی حقوق کے اداروں نے کبھی توجہ دی؟ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ ایسے مجرموں اور سزا یافتہ لوگوں کے ڈیٹا کا ملکوں کے بیچ اشتراک ہونا چاہیے۔ ان کا ایک گلوبل ڈیٹا بننا چاہیے۔

Published: undefined

ماہرین خبردار کرتےہیں کہ ایسے لوگ بہت ہی خطرناک ہوتے ہیں ۔ یہ نہایت خاموشی سے اور چابک دستی سے اپنا کام کرتے ہیں۔ اور کسی کو خبر نہیں ہونے دیتے۔ سہیل ایاز کے کیس نے کسی ایک کو نہیں بلکہ پوری دنیا کی حکومتوں کو بے نقاب کر دیا ہے یہ مسئلہ صرف تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کا نہیں بلکہ برطانیہ، امریکا اور یورپ میں بھی آئے روز ایسے واقعات منظر عام پرآتے رہتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined