سماج

چین: مظاہروں پر قابو پانے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات

چینی حکومت کو ایک دہائی میں عوامی احتجاج کی سب سے بڑی لہر کا سامنا ہے۔ چینی یونیورسٹیاں اب کووڈ کی پابندیوں کو سخت کرنے کے لیے طلباء کو گھر بھیج رہی ہیں۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس 

چینمیں لاک ڈاؤن کے خلاف مظاہروں پر قابو پانے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔ منگل کو بیجنگ اور شنگھائی جیسے شہروں کی سڑکوں پر چینی پولیس اہلکاروں کو بڑی تعداد میں گشت کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ چین بھر میں عوام سخت کووڈ پابندیوں کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ یہ حالیہ مظاہرے ایک دہائی قبل چینی صدر شی جن پنگ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سول نافرمانی کی سب سے بڑی لہر ہیں۔ چین کی زیرو کووڈ پالیسی نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا، معیشت کو نقصان پہنچایا اور عالمی سپلائی چین میں خلل ڈالا ہے۔

Published: undefined

مظاہرین اب صدر شی جن پنگ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ چینی یونیورسٹیاں اب کووڈ کی پابندیوں کو سخت کرنے اور مزید مظاہروں کو روکنے کی کوشش میں طلباء کو گھر بھیج رہی ہیں۔

Published: undefined

مخلتف چینی شہروں میں رہائشیوں نے میڈیا کے مختلف اداروں کو بتایا کہ پولیس مشتبہ مواد، ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) یا ٹیلیگرام ایپ کے استعمال کی جانچ کرنے کے لیے ان کے فونز کا جائزہ لے رہی ہے۔ ٹیلیگرام کا استعمال احتجاج کو مربوط کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

Published: undefined

چین میں وی پی این کا استعمال غیر قانونی ہے اور ٹیلیگرام ایپ انٹرنیٹ سے بلاک ہے۔ بیجنگ میں مظاہروں میں شریک ایک شخص نے روئٹرز کو بتایا، ''ہم سب اپنی چیٹ ہسٹری کو سختی سے حذف کر رہے ہیں۔ بہت زیادہ پولیس ہے۔ پولیس میرے ایک دوست کی آئی ڈی چیک کرنے آئی اور پھر اسے لے گئی۔ ہم نہیں جانتے کیوں۔ چند گھنٹے بعد انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔‘‘

Published: undefined

بیجنگ میں پولیس نے خاص طور پر لیانگما ندی کے قریب گشت کیا، جوسفارتی علاقے کے بہت نزدیک ہے اور جہاں اتوار کی شام سینکڑوں مظاہرین جمع ہوئےتھے۔ ڈی ڈبلیو کے مشرقی ایشیا کے نامہ نگار ولیم یانگ نے گوانگژو شہر سے ایک ویڈیو ٹویٹ کی جس میں مشتعل مظاہرین کو کووڈ ٹیسٹنگ بوتھ تباہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اتوار کی رات شنگھائی میں مبینہ طور پر پولیس مظاہرین کو ایک بس میں بھر کر لے گئی تھی۔

Published: undefined

ان حالیہ مظاہروں کا سلسلہ گزشتہ ہفتے سنکیانگ کے دارالحکومت ارمچی میں ایک عمارت میں لگنے والی آگ کے بعد شروع ہوا جس میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

Published: undefined

مظاہرین کے ساتھ سلوک پر مغربی ردعمل

چینی مظاہرین احتجاجی ریلیوں میں مزید آزادی اور صدر شی جن پنگ کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں، جنہیں حال ہی میں چین کے رہنما کے طور پر تیسری مرتبہ تھا۔ برطانوی وزیر اعظم رشی سناک نے خبردار کیا کہ چین نے اب برطانوی اقدار اور مفادات کے لیے ایک 'نظاماتی چیلنج‘ کھڑا کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ کو ''چین کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بدلنا ہوگا۔‘‘ انہوں نے پیر کو چینی پولیس کی جانب سے بی بی سی کے رپورٹر پر حملے کی بھی مذمت کی۔

Published: undefined

وائٹ ہاؤسنے مظاہروں پر اپنے رد عمل میں کہا کہ صدر جو بائیڈن بدامنی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے مزید کہا، ''لوگوں کو جمع ہونے اور پرامن طریقے سے ان پالیسیوں، قوانین یا حکم ناموں کے خلاف احتجاج کرنے کا حق دیا جانا چاہیے جن سے انہیں مسئلہ ہے۔‘‘

Published: undefined

جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ چینی حکام مظاہرین کی آزادی کا ''احترام‘‘ کریں گے۔

Published: undefined

فی الحال چین میں کووڈ کے وبائی مرض کے آغاز سے لے کر اب تک سب سے زیادہ انفیکشن سامنے آئے ہیں۔ منگل کے روز بیجنگ میں ہیلتھ کمیشن نے تقریباً 38,400 نئے کیسز رپورٹ کیے، جو ایک دن پہلے قائم کیے گئے 40,000 سے زیادہ کے ریکارڈ کے مقابلے میں معمولی کمی ہے۔

Published: undefined

کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پالیسیوں میں نرمی مزید بیماری کا باعث بن سکتی ہے اور ملک کے صحت کے بنیادی ڈھانچے کو مغلوب کر سکتی ہے۔ اکتوبر میں صدر شی نے اپنی زیرو کووڈ حکمت عملی کا دفاع کیا اور کہا کہ پابندیوں کے اقدامات نے لوگوں کو ''محفوظ‘‘کیا ہے۔

Published: undefined

حکام کے مطابق ان کی زیرو کووڈ پالیسی کی بدولت 1.4 بلین آبادی والے ملک میں ہلاکتوں کی تعداد کو قابو میں رکھاگیا ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے سرکاری اخبار پیپلز ڈیلی میں ایک اداریے میں شہریوں پر زور دیا کہ وہ زیرو کووڈ پالیسی پر عمل درآمد کریں اور یہ کہ فتح ''ہزاروں مشکلات کے باوجود ثابت قدمی‘‘ کے ساتھ آئے گی۔ ادارے میں مزید لکھا گیا ہے،''یہ جتنا مشکل ہے، اتنا ہی زیادہ آپ کو اپنے دانت پیسنے پڑیں گے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined