جمیلہ کورودس ایک ایسی باہمت خاتون ہیں، جو ایک باقاعدہ تربیت یافتہ سیلز وومین ہیں۔ انہوں نے ابھی حال ہی میں جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کے ایک پروگرام میں شرکت کی، جس کا موضوع تھا: ''محنت کے باوجود غریب، کیا سماجی ترقی ایک کھوکھلا وعدہ بنتی جا رہی ہے؟‘‘
Published: undefined
جمیلہ کوردوس اپنے بچوں کے ساتھ اکیلی رہتی ہیں اور انہیں تقریباﹰ ہمیشہ ہی مالی وسائل کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔ وہ ایک بڑے آن لائن شاپنگ سٹور کے ویئر ہاؤس میں کلرک کی کل وقتی ملازمت کرتی ہیں مگر ان کے پاس ہر ماہ ادا کیے جانے والے لازمی اخراجات کے بعد گزر بسر کے لیے صرف تقریباﹰ 500 یورو (610 ڈالر) ہی بچتے ہیں۔
Published: undefined
اس جرمن خاتون کارکن کو شکایت یہ ہے کہ جرمنی میں کام کرنے کے باوجود غریب رہنا روزمرہ کی کڑوی حقیقت بنتا جا رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسی بات کی ایک ایسی سرکاری رپورٹ بھی تصدیق کرتی ہے، جو ملک میں غربت سے متعلق جرمن وزارت محنت نے حال ہی میں جاری کی۔
Published: undefined
اس رپورٹ کے اجراء سے پہلے اس کی چانسلر انگیلا میرکل کی سربراہی میں وفاقی جرمن کابینہ نے منظوری بھی دے دی۔ اس سرکاری رپورٹ میں سامنے آنے والے حقائق پر جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ میں بحث اگلے ماہ جون میں ہو گی۔
Published: undefined
امسالہ رپورٹ 500 صفحات پر مشتمل ہے اور ایسی ایک رپورٹ جرمن وزارت محنت کی طرف سے ہر چار سال بعد تیار کی جاتی ہے۔
Published: undefined
تازہ ترین رپورٹ جن پریشان کن حقائق کی تصدیق کرتی ہے، ان میں یہ بات بھی شامل ہے: جرمنی میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج اتنی تیزی سے وسیع ہوتی جا رہی ہے کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں اور اس تفریق میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے مزید شدت آ گئی ہے۔‘‘ اس رپورٹ کے اجراء کے بعد جرمن اپوزیشن سیاسی جماعتوں، ٹریڈ یونینوں اور سماجی فلاحی تنظیموں نے خطرے کی گھنٹیاں بجانا شروع کر دی ہیں۔
Published: undefined
جرمنی میں سماجی فلاحی اور خیراتی اداروں کی نمائندہ سب سے بڑی ملکی تنظیم کے محقق اور اس ادارے کے روزگار سے متعلقہ امور کے شعبے کے سربراہ یوآخم روک کہتے ہیں، ''یہ رپورٹ اس امر کا ثبوت ہے کہ سماجی عدم مساوات سے پیدا ہونے والے بحران نے غریب ترین شہریوں کو ہی سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔‘‘
Published: undefined
یوآخم روک نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں کہا، ''کورونا وائرس کی عالمی وبا اور اس کی وجہ سے پیدا شدہ بحرانی حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ کم آمدنی والے باشندوں کو ہی سب سے زیادہ خطرہ رہا کہ وہ اپنے روزگار اور یوں اپنی آمدنی سے محروم ہو جائیں۔ اس کے برعکس امراء کو اس حوالے سے بہت ہی کم جدوجہد کرنا پڑی۔‘‘
Published: undefined
جرمنی میں غریب ہونے کا معیار یہ ہے کہ کسی شہری کی ماہانہ آمدنی ملک میں ایک عام کارکن کی بعد از ٹیکس ماہانہ اوسط آمدنی کے 60 فیصد سے کم ہو۔ اس وقت یہ رقم 1176 یورو (1429 ڈالر) ماہانہ کے برابر بنتی ہے۔
Published: undefined
اس کے برعکس یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں امیر ہر اس شہری کو گنا جاتا ہے، جس کی بعد از ٹیکس ماہانہ آمدنی 3900 یورو سے زیادہ ہو۔ لیکن دوسری طرف جرمنی کے بہت امیر شہریوں میں ملک بھر میں سپر مارکیٹوں کے سلسلے Lidl کے مالک ڈیٹر شوارٹس جیسے شہری بھی شامل ہیں، جن کی نجی دولت کا اندازہ 20 بلین یورو سے زیادہ لگایا جاتا ہے۔
Published: undefined
نئی سرکاری رپورٹ کے مطابق ملک میں امیری اور غریب کے مابین خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں امیر اور غریب شہریوں دونوں ہی کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس اسی وسیع ہوتی ہوئی خلیج کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ملک میں متوسط مالی طبقے کے شہریوں کی تعداد پہلے کی طرح آج بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined