پاکستانی صوبہ سندھ کے شہر جامشورو میں لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے قریب واقع ایک واٹر پمپ کے سامنے 8 نومبر کی رات دو نوجوان لڑکوں کو مبینہ جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان دو لڑکوں کے نام امر فیاض اور سرویچ نوہانی بتائے گئے ہیں۔
Published: undefined
لاپتا امر فیاض کی اہلیہ سپنا امر شیخ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ ان کے شوہر امر فیاض پچھلے ایک ماہ سے لاپتہ ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا کہ ان کے شوہر آٹھ نومبر کی رات تقریباﹰ 1:30 بجے جامشورو میں لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے سامنے واقع ایک واٹر پمپ کے قریب اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اس دوران وہاں مبینہ طور پر پولیس کی تین ویگو گاڑیاں پہنچیں، جس میں سادہ لباس میں لوگ سوار تھے اور وہ اسلحے کے زور پر امر اور سرویچ کو اغوا کر کے ساتھ لے گئے۔ انہوں نے باقی تین دوستوں کو ایک کمرے میں بند کر دیا تھا۔
Published: undefined
امر فیاض کے ایک دوست نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے نو نومبر کے روز علاقائی پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کرانے کی کوشش کی لیکن پولیس نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد حیدر آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی تاکہ پولیس کو تفتیش اور رپورٹ درج کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔
Published: undefined
حیدر آباد میں امر کے وکیل عبدالرزاق درس نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ امر کی اہلیہ نے اپنے شوہر کی جبری گمشدگی کی حیدر آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے تاہم عدالت میں کیسز زیادہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ ہفتے ان کا نمبر نہیں آ سکا تھا اور کیس کی سماعت نہ ہو سکی۔
Published: undefined
وکیل کے مطابق جامشورو پولیس اسٹیشن نے پہلے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا تھا تاہم پٹیشن جمع کرانے کے عدالتی نوٹس کے بعد امر کی اہلیہ کا پولیس اہلکاروں نے بیان ریکارڈ کرایا۔ لیکن عدالت میں پٹیشن ابھی زیرالتوا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
34 سالہ امر فیاض حیدر آباد میں بائیں بازو کی ایک تنظیم ’پروگریسو یوتھ الائنس‘ کے متحرک کارکن ہیں۔ امر اس تنظیم کے ساتھ طلبہ کے حقوق، طلبہ یونینز کی بحالی اور مفت تعلیم جیسے معاملات کے لیے سرگرم عمل رہتے تھے۔ اس کے علاوہ امر نے اکثر بائیں بازو کے سیاسی نظریات کی کتب کے سندھی زبان میں ترجمے بھی کیے تھے۔ انہوں نے حال ہی میں ’مارکسزم، عہد حاضر کا واحد سچ‘ نامی ایک کتاب کا سندھی ترجمہ بھی کیا تھا۔
Published: undefined
امر کے دوست کے مطابق خیرپور میں شاہ عبدالطیف بھٹائی یونیورسٹی سے ابلاغیات میں ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے والے امر فیاض ایک بیٹی کے والد ہیں۔ ان کے دوست نے بتایا کہ امر فیاض ایک ترقی پسند سوچ کے حامل سیاسی کارکن ہیں اور وہ سندھ میں لاپتا افراد کی بازیابی کے حوالے سے بھی فعال رہ چکے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
امر کی اہلیہ اور ان کی بیٹی گزشتہ ایک مہینے سے امر فیاض کی واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ امر کی اہلیہ سپنا نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو میں کہا کہ امر کی نہ کسی کے ساتھ دشمنی تھی اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی دھمکیوں کا سامنا تھا۔ ان کے بقول، ’’امر طلبہ کے حقوق کے لیے کوشاں تھے۔ ہمارا صرف یہ مطالبہ ہے کہ اگر ان کا کوئی جرم ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔‘‘
Published: undefined
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں شبہ ہے کہ امر کی جبری گمشدگی میں ملکی خفیہ ایجنسی کے اہلکار ملوث ہوسکتے ہیں۔ سپنا کے بقول، ’’پاکستان میں مسنگ پرسنز کے معاملات کسی سے چھپے نہیں ہیں، گزشتہ تین چار سال سے ایسے متعدد واقعات ہو رہے ہیں۔ اسی لیے ریاستی اداروں پر ہی شک ہے۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
گزشتہ ایک ماہ کے دوران امر فیاض کی بازیابی کے لیے پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی ممالک میں واقع پاکستانی سفارت خانوں کے سامنے بھی احتجاج کیا گیا۔ جرمن دارالحکومت برلن میں طلبہ کی تنظیم مارکسسٹ اسٹوڈنٹس الائنس نے بھی پاکستانی سفارتخانے کے سامنے 23 نومبر کو ایک مختصر احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
Published: undefined
اس مظاہرے کے منتظمین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امر کی بازیابی تک احتجاجی مہم جاری رہے گی۔ انہوں نے جرمنی میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلیمان کو بھی اس بارے میں آگاہ کیا ہے تاکہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں۔
Published: undefined
ادھر امر کی اہلیہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ پروگریسو یوتھ الائنس کے ممبران سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ اس کے علاوہ لاپتا افراد کی بازیابی کی تنظیم وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ نے بھی امر کی بازیابی کے لیے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ سپنا کے مطابق حکومتی یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں میں سے کسی نے بھی ابھی تک ان سے رابطہ نہیں کیا۔
Published: undefined
Published: undefined
جبری گمشدگیاں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر کئی دہائیوں سے ایک بدنما داغ رہی ہیں۔ جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کے حق میں ماضی کی حکومتوں کی جانب سے کئی دعوے کیے جاتے رہے ہیں لیکن قانون سازی میں سست روی کی وجہ سے آج بھی کئی افراد جبری طور پر لاپتہ ہو رہے ہیں۔
Published: undefined
لاپتہ افراد سے متعلق انکوائری کمیشن (COIED) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں برس اگست کے اواخر تک پاکستان بھر سے کل 6752 جبری گمشدگیوں کے کیس درج ہوئے، جن میں سے 3672 افراد زیر حراست ہیں، 2097 کی ان کے گھروں میں واپسی ہو چکی ہے اور 2110 کیسز ابھی تک حل نہیں ہو سکے۔
Published: undefined
اسی رپورٹ میں شائع کیے گئے اعداد و شمار میں 213 لاپتا افراد کی لاشیں ملنے کا بھی ذکر ہے۔ اس کے علاوہ جبری گمشدگی کے سب سے زیادہ واقعات صوبہ خیبر پختونخوا میں 2571، صوبہ سندھ میں 1618، پنجاب میں 1406، بلوچستان میں 509، اسلام آباد اور فاٹا دونوں سے 291، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 57 اور گلگت بلتستان میں ایسے نو کیس رپورٹ کیے گئے۔
Published: undefined
پاکستان میں لاپتا ہونے والے افراد میں نمایاں طور پر سندھی، بلوچ، پشتون، شیعہ مذہبی برادری، سیاسی کارکن، انسانی حقوق کے محافظ، قوم پرست گروپوں کے حامی، مسلح گروہوں کے مشتبہ ارکان اور کچھ کالعدم سیاسی اور مذہبی تنظیموں کے افراد شامل رہے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined