ہم ان تہواروں سے زیادہ کسی کی شادی پر خوش ہوتے ہیں۔ عید پر سب پر سستی چھا جاتی ہے۔ مرد عید کا دن سوتے ہوئے گزارتے ہیں اور عورتیں باورچی خانے میں کھانے پکاتے ہوئے، برتن دھوتے ہوئے یا اردگرد بھاگتے بچوں کو ڈانٹتے ہوئے اپنی عید گزار دیتی ہیں۔
Published: undefined
پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی میں عید کسی بھی گھرانے کے لیے ایک اضافی اور بہت بڑا خرچہ ثابت ہو سکتی ہے۔ سب کے نئے کپڑے بنیں گے، نئے جوتے آئیں گے۔ لڑکیوں کی چوڑیاں، مہندی، اور دس چیزیں۔ پھر عیدی کا خرچہ الگ۔
Published: undefined
ہمارے بچپن میں فی بچہ عیدی کا ریٹ سو روپے ہوتا تھا۔ اس وقت کے سو روپے کی قدر آج کے سو روپے کی قدر سے بہرحال زیادہ ہی ہوتی تھی۔ آج کسی بچے کو سو روپے دیتے ہوئے انسان خود شرمندہ ہو جاتا ہے۔ کم سے کم بھی عیدی دینی ہو تو ہزار روپے فی بچہ عیدی دینی پڑتی ہے۔ جن کے بچے شادی شدہ ہیں انہیں ان کی عیدی کا الگ سے اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ ان کے کپڑے بھی جائیں گی، مٹھائی بھی جائے گی، پھل بھی جائیں گے اور پھر نقد رقم بھی جائے گی۔
Published: undefined
بڑے لوگوں کو چھوڑ دیں۔ ان کی تو کلاس ہی الگ ہے۔ وہ ہزاروں میں عیدیاں بانٹتے ہیں۔ جیسے ہماری ایک پرانی دوست عید کے بعد ملیں تو کہنے لگیں کہ انہیں ان کے بہنوئی نے چالیس ہزار روپے عیدی دی ہے۔ ہم حیران ان کی شکل دیکھتے رہے کہ اس ملک میں اتنی عیدی بھی دی جاتی ہے۔
Published: undefined
ہم عام لوگوں کی بات کر رہے ہیں جو اپنی چادر دیکھتے ہوئے پاؤں پھیلاتے ہیں۔ ان کے لیے عید ایک اضافی خرچہ ہی ہوتی ہے۔ اس طبقے پر رسومات کا بوجھ بھی کافی ہوتا ہے۔ یہ ایسے مواقعوں پر خود ہی اپنی چادر سے باہر اپنے پاؤں نکال کر اپنے لیے مشکل پیدا کر لیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ عید تو صرف بچوں کی ہوتی ہے۔
Published: undefined
عید تو سب کی ہوتی ہے۔ اسلام کے مطابق عید رمضان کے اختتام پر مسلمانوں کے لیے اللہ کی طرف سے دیا گیا ایک تحفہ ہے۔ اس تحفے کو انہوں نے اپنے اوپر خود بوجھ بنا لیا ہے۔ طرح طرح کی رسومات نکال لی ہیں۔ فضول خرچیاں، دکھاوا اور زرا سی باتوں پر لمبے چوڑے جھگڑے۔ اگر یہ فضول خرچیاں کم کر لی جائیں، دکھاوے سے جان چھڑا لی جائے اور آپسی جھگڑوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنے دل میں جگہ دے دی جائے تو بڑے بھی بچوں کی طرح خوشی سے عید منا سکتے ہیں۔
Published: undefined
بچے چھوٹی چھوٹی بات پر خوش ہو جاتے ہیں۔ وہ دل میں کینہ اور حسد نہیں رکھتے۔ جو دل میں ہوتا ہے وہی بول دیتے ہیں۔ وہ ایک پل لڑ رہے ہوتے ہیں تو دوسرے پل ایک دوسرے کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ہم بڑے سالوں پہلے کہی ہوئی کسی بات کو دل میں رکھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ کوئی خوشی کا موقع آتا ہے تو ہمارے دل میں وہ بات اچھلنا شروع کر دیتی ہے۔ پھر نہ ہم خود خوشی منا پاتے ہیں نہ اپنے اردگرد دوسروں کو خوشی منانے دیتے ہیں۔
Published: undefined
بچوں کے لیے عید خوشی کا دن ہوتی ہے۔ گھر میں پکوان بن رہے ہوتے ہیں۔ وہ نئے کپڑے پہن کر تیار ہو کر سب سے اپنی عیدیاں وصول کرتے ہیں۔ اور پھر ان عیدیوں سے اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرتے ہیں۔ جیسے بچپن میں ہم سب کزن عیدی ملتے ہی قریبی چوک پر ایک ٹھیلے والے سے دال بھری کچوریاں کھانے جایا کرتے تھے۔ ہماری اسی میں عید ہو جاتی تھی۔ گھر میں کون کس سے ناراض ہے۔ ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا تھا۔ ہم آپس میں ہنستے بولتے اپنی عید منا لیتے تھے۔
Published: undefined
شام میں پتہ لگتا تھا کہ اماں ابا سے اینٹھی بیٹھی ہیں۔ دادی الگ غصہ ہیں۔ پھوپھو ہنستے ہوئے کسی چچی کو باتیں لگا رہی ہیں۔ اس وقت ان باتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی لیکن پتہ لگ جاتا تھا کہ معاملہ کچھ خراب سا ہے۔ پھر ہماری عید بھی بے رونقی ہو جاتی تھی۔ تہوار کی خوشیاں ایک دوسرے سے ہوتی ہیں۔ جس دن سب ایک ساتھ بیٹھ جائیں وہی خوشی کا دن ہوتا ہے تو جب ایک دن اسی مقصد کے لیے آ رہا ہے تو اسے خوشی خوشی کیوں نہ منایا جائے۔ کیوں اس دن کو پچھلی ناراضگیوں کے حوالے کرتے ہوئے اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے تباہ کیا جائے۔
Published: undefined
کیوں عید کو بس بچوں کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ کیوں نہ اس دن ہم خود بھی اپنی خوشی کے لیے کچھ کریں۔ رشتے داروں سے دوستوں سے تنازعات ہیں تو انہیں حل کرنے کا سوچیں یا کم از کم ان تنازعات کو اپنی عید نہ خراب کرنے دیں۔ اگر یہ مشکل لگ رہا ہو تو اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی مل بیٹھیں۔ باتیں کریں، تصاویر بنائیں، اچھے اچھے پکوان کھائیں، کہیں گھومنے جائیں یا بس گھر بیٹھ کر اپنی پرانی تصاویر دیکھیں۔ گزرا ہوا اچھا وقت یاد کریں۔
Published: undefined
عید منانے کی کوشش کریں گے تو ہی عید منائی جائے گی ورنہ یہ تین دن بھی باقی دنوں کی طرح گزر جائیں گے اور پھر سے وہی روٹین کی زندگی شروع ہو جائے گی۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined