سماج

پاکستان میں ڈس انفارمیشن پھیلا کر پیسے کمانے کا رجحان

جان بوجھ کر حقائق کے منافی یا غلط معلومات کی ترسیل ڈس انفارمیشن کہلاتی ہے، جس کا عام طور پر مقصد کسی کو نقصان پہنچانا ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں ڈس انفارمیشن کے ذریعے پیسے کمانے کا رجحان عام ہے۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس&nbsp;</p></div>

علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس 

 

تیزی سے تبدیل ہوتی اس دنیا کے مسائل بھی تیزی سے تبدیل ہو رہے۔ ڈیجیٹل میڈیا پر بڑھتی ڈس انفارمیشن ایک ایسا مسئلہ ہے، جس سے نمٹنے کے لیے بڑے بڑے ادارے اپنے تئیں کوشاں ہیں۔ امریکہ میں ہونے والے انتخابات ہوں یا پاکستان کا تیزی سے تبدیل ہوتا سیاسی منظر نامہ، ہر طرف ڈس انفارمیشن کا پھیلاؤ اپنا رنگ دکھاتا ہے اور اس حد تک اثر انداز ہوتا ہے کہ رائے عامہ میں تبدیلی لاکر حکومتیں بناتا اور گراتا ہے۔

Published: undefined

تحقیقی حوالوں کے لئے استعمال ہونے والی آن لائن لائبریری ڈیٹا ریپورٹل کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 میں پاکستان میں سوشل میڈیا اور یوٹیوب صارفین کی تعداد 71.70 ملین ہے۔ صحافت کے لیے سازگار ماحول کی کمی خصوصا جبری برطرفیوں کے باعث بہت سے صحافیوں نے سوشل میڈیا خاص کر یوٹیوب اور فیس بک کا رخ کیا ہے۔

Published: undefined

ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2023 کے مطابق 180 میں سے 118 ممالک میں کرائے جانے والے سروے کے شرکاء کا کہنا تھا کہ ڈس انفارمیشن پھیلانے میں سیاسی جماعتیں بھی ملوث ہوتی ہیں اور یہ سب کچھ ان لوگوں کے ذریعے کرایا جاتا ہے، جو بظاہر غیر جانبدار اور معیاری صحافت کے دعوے دار ہوتے ہیں۔

Published: undefined

صحافی عمر دراز مین سٹریم میڈیا سے اب ڈیجیٹل میڈیا کا رخ کر چکے ہیں۔ انہوں ںے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا، ''مین سٹریم میڈیا میں جاب سکیورٹی اور تنخواہ کا کوئی سٹرکچر نہیں ہے، ایسے میں یوٹیوب پیسے کمانے کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔‘‘ عمر کہتے ہیں کہ تھمب نیل کا انتخاب ایک آرٹ ہے، کہانی کو مختلف زاویے سے دکھانے میں کوئی برائی نہیں۔

Published: undefined

اسی بات سے اتفاق کرتے ہوئے پاکستانی ڈیجیٹل میڈیا ادارے پاک افیئرز سے منسلک صحافی نعمان خان نے کہا کہ ایک سال تک پیشہ ورانہ انداز میں کام کرنے کے باوجود جب چینل پر ریچ نہیں آئی تو ریچ بڑھانے کے لیے بڑے یوٹیوبرز کی طرح تھمب نیل پر سنسنی خیز جملے لکھنا مجبوری بن گئی تھی۔

Published: undefined

ڈس انفارمیشن سے پیسے کمانے کے موضوع پر بات کرتے ہوئے فری لانس صحافی زیاد علی شاہ نے کہا کہ ایک صحافی ڈس انفارمیشن کے ذریعے ماہانہ دو سے تین لاکھ روپے تک کما رہا ہے۔ ان کے بقول یہاں تک کہ ارشد شریف کے قتل پر بھی صحافیوں نے غلط خبریں دی تھیں۔ صحافت کا سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ ہر بات کو تصدیق کر کے شائع کیا جائے کیونکہ غلط خبروں کی ترسیل معاشرے میں انتشار کا باعث بنتی ہے اور اس کو ہائبریڈ وار فئیر میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

انڈیپینڈنٹ اردو میں سوشل میڈیا ایڈیٹر ثاقب تنویر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ڈس انفارمیشن کی مارکیٹ اتنی پرکشش ہے کہ اس سے ویوز ملنے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں، کئی صحافی اس سے نام اور پیسہ کما رہے ہیں، جو کہ غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر صحافی کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ خبر کی خود تصدیق کرے۔ پاکستان میں ادارے بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے فیکٹ چیکنگ کی ٹریننگ تو دیتے ہیں مگر میڈیا ہاؤسز اس کام کے لیے الگ سے ملازمین ہائر نہیں کر سکتے کیونکہ یہ نہ صرف ایک مہنگا کام ہے بلکہ اس سے بہت کم مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

Published: undefined

میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر 10 میں سے 9 افراد یہ سمجھتے ہیں کہ ڈس انفارمیشن بہت بڑا مسئلہ ہے۔ فیس بک یا یو ٹیوب کی کمیونٹی گائیڈ لائنز کے مطابق ڈس انفارمیشن کو پلیٹ فارم سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ تاہم پاکستان جیسے ممالک میں ڈس انفارمیشن یا غلط خبریں مقامی زبانوں میں پھیلائی جاتی ہیں ایسے میں ان پلیٹ فارمز کے لیے ان خبروں کو سمجھنا اور بلاک کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

Published: undefined

گلوبل نیبرہوڈ فار میڈیا انوویشن کی صدر ناجیہ اشعر کے مطابق چینلز ان سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو بھرتی کر رہے ہیں، جن کی فالوؤنگ لاکھوں میں ہو، چینلز ان کی مقبولیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے کسی پالیسی کا نفاذ نہیں کرتے، یہاں معاملہ کاروبار کا زیادہ اور صحافت کا کم ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صحافیوں کی تربیت انتہائی ضروری ہے، ''ڈیپ فیک، ارٹیفیشل انٹیلیجنس، فیکٹ چیک پروسس، بوٹ فیک اور جدید صحافتی طریقوں سے ہم آہنگ ہو کر صحافی اپنی کریڈیبلیٹی کو نکھارتے ہیں۔‘‘ نجی اداروں کے علاوہ حکومتی اداروں میں بھی فیکٹ چیکنگ کی ٹریننگز دی جا رہی ہیں۔

Published: undefined

ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے ڈپلومیٹک کارسپانڈنٹ اور ہیڈ آف چائینیز افئیرز ڈاکٹر فرقان راؤ کا کہنا ہے،''ہمارے ادارے میں فیکٹ چیکنگ کی ٹریننگ سال میں تقریبا دو بار کروائی جاتی ہے تاکہ کوئی صحافی خبر کو بنا تصدیق شائع نہ کرے۔ خبر شائع کرنے سے پہلے لازمی فیکٹ چیک کیا جاتا ہے، یہ بھی کہ جو کہا جا رہا ہے وہ سچ ہے یا نہیں؟ اس کے لیے ہم آفیشل ویب سائٹس سے ڈیٹا چیک کرتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

اگر نجی یا سرکاری اداروں کے صحافیوں کی رائے کو مدنظر رکھا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹریننگز اور فیکٹ چیکنگ تو ہر جگہ ہو رہی ہے لیکن پھر بھی ڈس انفارمیشن پھیلائی جا رہی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس بھی ڈس انفارمیشن کے حوالے سے زیر بحث ہے۔ یورپی یونین ریسرچ اینڈ انوویشن میگزین، ہورائزن کے مطابق آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے ڈیپ فیک تصاویر، ویڈیوز اور آوازیں بنائی جا سکتی ہیں، جن کو پہچاننا مشکل عمل ہے۔

Published: undefined

ایسے میں جب ریسرچ اور رپورٹس واضح طور پر پاکستان میں ڈس انفارمیشن کے پھیلاؤ کے بارے میں اپنی تشویش ظاہر کر رہی ہیں تو صحافیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ڈس انفارمیشن کو ذریعہ معاش نہ بنائیں کیونکہ یوٹیوب پر ایسے چینلز کی بھرمار ہے، جو غلط خبروں کی پھیلا رہے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined