سماج

سعودی عرب: ہم جنس پرستوں کی پہلی این جی او کا تنازعہ

غیرسرکاری تنظیم ’مختلف‘ رجسٹر تو اب یورپی ملک سویڈن میں ہوئی ہے لیکن یہ سعودی عرب میں ہم جنس پسندوں اور خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے میدان میں اتری ہے۔ کیا اس تنظیم کو سعودی حکومت کی حمایت بھی حاصل ہے؟

سعودی عرب: ہم جنس پرستوں کی پہلی این جی او کا تنازعہ
سعودی عرب: ہم جنس پرستوں کی پہلی این جی او کا تنازعہ 

حقوق نسواں، ہم جنس پرستی اور الحاد، سعودی عرب میں ان تینوں موضوعات کو شجر ممنوعہ قرار دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں سعودی سلامتی کے ادارے کی طرف سے انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو جاری کی گئی تھی، جس میں ان تینوں موضوعات کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس حوالے سے ان کا موقف انتہائی سخت ہے۔

Published: undefined

نومبر میں ٹویٹر پر جاری کی جانے والی اس ویڈیو کو بعدازاں ڈیلیٹ کر دیا گیا تھا۔ اس ادارے کا اس ویڈیو سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس ویڈیو میں چند نقائص تھے، جن کی وجہ سے اسے انٹرنیٹ سے ہٹا لیا گیا ہے۔ لیکن ایسی ویڈیو جیسے واقعات کی وجہ سے ہی سویڈن میں رہائش پذیر چھبیس سالہ روان اوطیف نے ایک غیر سرکاری تنظیم 'مختلف‘ کی بنیاد رکھی تھی، تاکہ سعودی عرب میں موجود ہم جنس پرستوں کے حقوق کا دفاع کیا جا سکے۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اوطیف کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس تنظیم کی بنیاد سن دو ہزار سترہ میں رکھی تھی۔ اس کے ایک سال بعد ہی انہوں نے سویڈن میں سیاسی پناہ کی درخواست دے دی تھی۔ اوطیف کے مطابق وہ سویڈن سے ہی سعودی ہم جنس پرستوں کے حقوق کی جنگ لڑنا چاہتی ہیں۔ نومبر کے اواخر میں سویڈن نے بھی اس تنظیم کو باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ کر لیا ہے۔

Published: undefined

اوطیف کے مطابق ان کے چار مقاصد ہیں۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ سعودی عرب میں ہم جنس پرستی قانونی طور پر قابل سزا جرم نہ رہے، دوسرا سعودی عرب میں ہم جنس پرستوں اور خواجہ سراؤں کو قانونی تحفظ فراہم کرانا، تیسرا مقصد اسکولوں وغیرہ میں اس جیسے ممنوعہ موضوعات پر بات کرنے کی اجازت دلوانا اور چوتھا مقصد یہ ہے کہ 'ایل جی بی ٹی‘ کمیونٹی کو صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔

Published: undefined

دوسری جانب سعودی عرب میں اس حوالے سے سخت قوانین موجود ہیں۔ انیس سو اسی کی دہائی میں بنائے جانے والے ایک قانون کے مطابق ہم جنس پرستی ایک جرم ہے اور ایسا ثابت ہونے پر ملزم کو جیل میں قید کر دیا جاتا ہے۔

Published: undefined

عرب خطے میں ہم جنس پرستی کس قدر متنازعہ موضوع ہے، اس کا اندازہ الجزیرہ کے مشہور صحافی احمد منصور کی ایک ٹویٹ سے ہوتا ہے۔ انہوں نے 'مختلف‘ تنظیم کی رجسٹریشن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ اسے قانونی حیثیت دے دی گئی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ اسے قانونی حیثیت سعودی عرب نے نہیں سویڈن نے فراہم کی ہے۔

Published: undefined

احمد منصور کا سوال اٹھاتے ہوئے کہنا تھا کہ خادم الحرمين الشريفين کا بس یہ کام رہ گیا ہے؟ انہوں نے ٹویٹ میں مزید لکھا، '' ایک ہم جنس پرست تنظیم نے اپنے پیج پر یہ لکھا ہے کہ اسے باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ کر لیا گیا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ سعودی عوام کو کس راستے پر لے کر جانا چاہتے ہیں؟ کہاں ہیں وہ علماء، جنہوں نے اپنی زبانوں پر تالے ڈال دیے ہیں اور جن کے دل نابینا ہو چکے ہیں۔‘‘

Published: undefined

اس ٹویٹ کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث شروع ہو چکی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ہم جنس پرستی صرف سعودی عرب ہی نہیں دیگر خلیجی ریاستوں میں بھی ایک جرم ہے۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان اصلاحات کا اعلان تو کر چکے ہیں لیکن وہاں ہم جنس پرستوں کو حقوق ملنا ابھی بہت دور کی کوڑی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined