سماج

پاکستان: نفرت انگیزجرائم اور توہین مذہب کے الزامات میں اضافہ

ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق قیام پاکستان سے لے کر اب تک توہین مذہب کے الزامات پر اسی افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق حکومت کو ملزموں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان: نفرت انگیزجرائم اور توہین مذہب کے الزامات میں اضافہ
پاکستان: نفرت انگیزجرائم اور توہین مذہب کے الزامات میں اضافہ 

پاکستان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں، سیاستدانوں اور اقلیتی برادریوں کے ارکان نے ملک میں نفرت انگیز جرائم اور توہین مذہب کے الزامات میں اضافےپر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان تنظیموں اور افراد کا دعویٰ ہے کہ سزا سے بچ جانےکا کلچر، خوف کا عنصر، کچھ مذہبی گروہوں کا عروج اور ریاست کی غیر فعالیت اس صورتحال میں مزید بگاڑ پیدا کر رہی ہے۔

Published: undefined

یکم اکتوبر کو جنوبی پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ایک مدرسے کے ایک طالب علم نے مبینہ توہین مذہب کے الزام پر پہلے ایک معذور شخص کو آگ لگائی اور جب متاثرہ شخص نے آگ بجھانے کے لیے قریبی تالاب میں چھلانگ لگائی تو حملہ آور نے اس کا پیچھا کرتے ہوئے اس کا گلا گھونٹ کر قتل کر دیا۔ اس واقعے نے معاشرے کے کئی طبقوں کو خوفزدہ کر دیا۔ قتل کے اس واقع کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد معاشرے کے مختلف طبقے شدید تشویش کا شکار ہو گئے۔

Published: undefined

اس ہولناک قتل سے پیدا ہونے والا خوف ابھی کم نہیں ہوا تھا کہ مشرقی صوبے پنجاب میں ایک شیعہ مسلم عالم نوید عاشق کے قتل نے ملک کے کئی حصوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ اس سےقبل اسی صوبے کے ایک 'عالم دین‘ نے تجویز پیش کی تھی کہ حاملہ احمدی خواتین کو قتل کر دیا جائے۔ احمدی ایک اقلیتی مذہبی فرقہ ہے جنہیں پاکستان میں قانونی طور پر غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے۔

Published: undefined

انسانی حقوق کی تنظیموں کا خیال ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے زیادہ تر الزامات میں ذاتی مفادات، جائیداد کے تنازعات یا چھوٹے موٹے معاملات کو حل کرنے کے لیے مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں 1947ء سے 2021 ءکے درمیان 1415 افراد پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے۔ اسلام آباد میں قائم ایک غیرسرکاری تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق اب تک توہین مذہب کے الزامات میں ہلاک ہونے والے81 افراد میں سے 10 خواتین اور 71 مرد تھے۔

Published: undefined

نفرت انگیز جرائم میں اضافہ

حال ہی میں صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک کے ایک اسکول سے چار طالبعلموں کو صرف اس لیے نکال دیا گیا کہ وہ احمدیہ فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ جماعت احمدیہ پاکستان کے ایک ترجمان عامر محمودکے مطابق اسکول نے ان طالبعلموں کے اسکول چھوڑنے کے سرٹیفکیٹ میں بھی لکھا کہ انہیں احمدی ہونے کی وجہ سے نکال دیا گیا ہے۔ عامر محمود نے نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سوشل میڈیا ہماری کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز لٹریچر سے بھرا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ احمدیہ کمیونٹی کے خلاف بینرز، پوسٹرز اور معلومات کے دیگر ذرائع بھی استعمال کیے گئے، جو بعض معاملات میں توہین مذہب کے الزامات کا باعث بنتے ہیں۔ عامر محمود نے ڈی ڈبلیو کو بڑی تعداد میں اپنی برادری کے خلاف نفرت پھیلانے والے لٹریچر کی نقول بھی بھجوائیں ۔

Published: undefined

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چیئرمین اسد بٹ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس طرح کے جرائم اور لوگوں پر توہین مذہب کا الزام لگانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے خیال میں نفرت انگیز جرائم اور توہین مذہب کے الزامات میں اضافے کی وجہ کئی عوامل ہیں۔

Published: undefined

سزا وجزا کا خوف نہ ہونا

تجزیہ کاروں کے خیال میں استثنیٰ کا کلچر اقلیتی ارکان اور توہین مذہب کے ملزم مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم اور تشدد کو ہوا دے رہا ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد میں ایک سنی انتہا پسند تنظیم کے ایک اجتماع نے کھلے عام شیعہ مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی کی۔

Published: undefined

اسد بٹ کا ماننا ہے کہ اس طرح کے اشتعال انگیز نعروں اور تقریروں سے آنکھیں بند کرنا ان عوامل میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے استثنیٰ کا یہ کلچر پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ان جرائم اور الزامات کو روکنے کے اقدامات کرنے کے بجائے ُان طالبان اور انتہا پسند گروہوں سے مذاکرات کر رہی ہے جنہوں نے عیسائیوں، احمدیوں اور بہت سے مسلمانوں اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے انسانوں کو قتل کیا۔

Published: undefined

اسد بٹ کا کہنا ہے کہ ریاست کا یہ رویہ انتہا پسند عناصر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اقلیتوں اور مسلم فرقوں کے خلاف زہر اگلنے کے علاوہ توہین مذہب کے ملزمان کو ہجوم کی شکل میں تشدد کا نشانہ بنائیں۔

Published: undefined

خوف کا عنصر

صرف عام پاکستانی ہی نہیں بلکہ کچھ ہائی پروفائل شخصیات پر بھیتوہین مذہب کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ماضی میں موجودہ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کو ایک جنونی نے گولی مار کر زخمی کر دیا تھا جبکہ لاہور میں ایک انتہا پسند طالب علم نے سابق وزیر اعظم نواز شریف پر جوتا پھینکا تھا۔

Published: undefined

پنجاب کے شہر اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی سرگرم کارکن سعدیہ کا خیال ہے کہ انتہا پسند گروہ سماجی طور پر بے پناہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ ان کے بقول یہ گروہ لوگوں کو ایک دوسرے پر توہین مذہب کا الزام لگانے والوں کے دعووں پر سوال اٹھانے سے روکتے ہیں۔ سعدیہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''اگر کسی شخص پر توہین مذہب کا الزام لگتا ہے تو لوگ بغیر کسی تحقیق کے ملزم کے گھر کے باہر اکٹھے ہو کر نعرے بازی شروع کر دیتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

مذہبی مدرسوں کی بہتات

انسانی حقوق اور اقلیتوں کے لیے کام کرنے والے کچھ کارکنوں کا خیال ہے کہ مذہبی مدرسوں میں غیر منظم اضافےکی وجہ سے نفرت انگیز جرائم اور توہین مذہب کے الزامات کے دعووں میں اضافہ ہوا ہے۔ گھوٹکی میں معذور شخص کا قاتل ایک دینی مدرسے کا طالب علم بتایا جاتا ہے۔ صوبہ سندھ میں مقیم ایک سیاسی کارکن نغمہ اختیار کہتی ہیں کہ سندھ میں دینی مدارس کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بیس سال پہلے سندھ میں ہمارے پاس زیادہ مدرسے نہیں تھے، اب ہر علاقے میں مدرسے مل سکتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

تحریک لبیک پاکستان کا کردار

پاکستان میں گزشتہ چودہ سالوں کے دوران تحریک لبیک پاکستان(ٹی ایل پی) کے نام سے ایک مذہبی تنظیم کی بے پناہ مقبولیت دیکھنے میں آئی ہے۔ سخت گیر نظریات کی حامل ٹی ایل پی نے ملک میں توہین مذہب کے قوانین میں کسی بھی ترمیم کی سخت مخالفت کرتی ہے اور یہ اسی پس منظر میں 2017 ء میں بڑے پیمانے پر دھرنا دے کر اسلام آباد کو مفلوج کر چکی ہے۔ بہت سے ناقدین کا دعویٰ ہےکہ یہ تنظیم نہ صرف ملک کی اقلیتوں پر وحشیانہ حملے کرتی ہے بلکہ اپنےنظریات کو چیلنج کرنے کی جرات کرنے والے کسی بھی شخص کو بھی نشانہ بناتی ہے۔

Published: undefined

ٹی ایل پی نے چند سال قبل توہین مذہب کے معاملے پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر نہ کرنے پر وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ چند ہفتے قبل چنیوٹ میں ایک احمدی شخص کو قتل کرنے والے ایک جنونی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ٹی ایل پی کا پیروکار ہے۔

Published: undefined

حکومتی مؤقف

حکومتی اتحاد میں شامل جماعت جمیعت علما اسلام کے ایک رہنما محمد جلال الدین ایڈوکیٹ اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہنفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آئین کے تحت اقلیتوں کو تمام حقوق دیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شیعہ اور سنی کا مسئلہ پرانا ہے اور حکومت نفرت پھیلانے والے کسی بھی شخص کے ساتھ نرمی نہیں برت رہی ہے۔''جو کوئی بھی قانون کی خلاف ورزی کرے گا اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، بشمول وہ لوگ جو نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے ان الزامات کو بھی مسترد کیا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ان واقعات کے ذمہ دار ہیں،'' یہ بالکل مختلف معاملہ ہے اور پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد(طالبان سے) بات چیت ہو رہی ہے اور آئین سے ماورا کچھ نہیں کیا جائے گا۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined