سماج

کيا طنز و مزاح کے ذریعے انتہا پسندی کا مقابلہ ممکن ہے؟

جرمنی میں حکام نے انتہا پسند رجحانات کا مقابلہ کرنے کے ليے طنز و مزاح پر مبنی دو نئے يو ٹيوب چينل لانچ کیے ہیں۔ ايک پر معلومات فراہم کی جاتی ہے جبکہ دوسرے پر طنز و مزاح کے ذریعے پر آگہی دی جاتی ہے۔

کيا طنز و مزاح کے ذریعے انتہا پسندی کا مقابلہ ممکن ہے؟
کيا طنز و مزاح کے ذریعے انتہا پسندی کا مقابلہ ممکن ہے؟ 

رياست نارتھ رائن ويسٹ فاليا کے حکام کو امید ہے کہ یہ مہم انٹرنیٹ پر مذہبی پراپگینڈا اور شدت پسندی کا مقابلہ کرنے میں مؤثر ثابت ہوگی۔ 'جہادی بے وقوف‘ کے عنوان سے يو ٹيوب چينل جرمن شہر کولون ميں جاری کمپيوٹر گيمز کی نمائش 'گيمز کوم‘ کے دوران بائيس اگست کو لانچ کيا گيا۔ اس چينل پر موجود ويڈيوز ميں مختصر دورانيے کے طنز و مزاح کے خاکے ہوں گے، جن کے ذريعے اسلام کے نام پر انتہا پسندی اور دہشت گردی پھیلانے والوں کا مقابلہ کیا جائے گا۔ جبکہ دوسرے چينل پر تشدد پر اُکسانے والے سلفی نظریات کا حقائق اور معلومات کی بنیاد پر جواب دیا جائے گا۔ يہ چينل آئندہ ہفتے لانچ ہوگا۔

Published: undefined

اس مہم کے تحت آئندہ ايک سال ميں بتيس مزاحيہ ويڈيوز اور سولہ تعليمی ويڈيوز رلیز کی جائيں گی، جن پر پانچ لاکھ يورو لاگت آئے گی۔ ابتدائی چند روز ميں 'جہادی بے وقوف‘ يو ٹيوب چينل پر ملا جلا رجحان ديکھنے ميں آيا۔ بعض لوگ ان ويڈيوز کو تفريحی قرار دے رہے ہيں تو کچھ انہيں سرکاری پيسوں کا ضياع بھی کہہ رہے ہيں۔

Published: undefined

حکومت کو اس مہم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

Published: undefined

ریاست نارتھ رائن ويسٹ فاليا کے وزير داخلہ ہربرٹ ريول کے مطابق شام اور عراق ميں دہشت گرد تنظيم اسلامک اسٹيٹ کی شکست کا ہر گز يہ مطلب نہيں کہ آبادی کے لحاظ سے جرمنی کے سب سے بڑے صوبے ميں موجود تين ہزار سے زائد سلفی انتہا پسند بھی اچانک ختم ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''وہ اب بھی سرگرم ہيں اور ايسے راستے اور پليٹ فارمز استعمال کرتے ہيں جن سے وہ نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کر سکيں۔‘‘ ريول کے بقول مزاح اور حقائق جمہوری معاشرے میں اظہار کا اہم ذریعہ ہيں۔

Published: undefined

مذہبی انتہاپسندی روکنے کے ليے سرگرم افُق نامی تنظيم سے وابستہ محققہ جوانح گولسورکھ کہتی ہيں کہ طنز و مزاح پر مبنی ويڈيوز کا خيال تو اچھا ہے ليکن ان کی کاميابی کا دارومدار اس پر ہو گا کہ وہ آ کہاں سے رہی ہيں۔ عموماً اگر ايسا مواد حکومتی اداروں کی جانب سے پيش کيا جائے، تو اس کی کاميابی کے امکانات محدود ہوتے ہيں۔

Published: undefined

دوسری جانب تاريخ دان اور اسلامی امور پر مہارت رکھنے والے کرسٹيان اوسٹہولڈ کا کہنا ہے کہ آگہی کی يہ مہم کامياب اور مؤثر ہو سکتی ہے بشرطیہ کہ اس کے لیےجرمنی میں مقیم مسلم برادی کے با اثر لوگوں کو اس کا حصہ بنایا جائے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined