ژون امریکی ریاست ورجینیا میں مقامی حکومت کے لیے کام کرتے ہیں۔ چالیس سالہ ژون رواں برس اپریل میں کورونا ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوا چکے ہیں۔ ان کے زیادہ تر کولیگز بھی ویکسین لگوا چکے ہیں، تاہم انہیں کیسے معلوم ہو کہ کسے ویکسین لگ چکی ہے اور کسی نہیں؟
Published: undefined
"مجھے لگتا ہے کہ بہت سے لوگ یہ انفارمیشن رضاکارانہ طور پر دیتے ہیں، حالاں کہ بعض اوقات ہمیں پوچھنے کا حق بھی نہیں ہوتا۔" دنیا بھر میں کام کی مختلف جگہوں پر کورونا ویکسین لگوانا ایک عمومی سا سوال بن گئی ہے۔ "کیا آپ نے کورونا ویکسین لگوا لی؟" اور "کون سی"؟ ان دِنوں گفتگو کے یہ ابتدائی جملے بن چکے ہیں۔
Published: undefined
جرمنی میں ویکسینیشن کا آغاز دیگر کئی ممالک کے مقابلے میں خاصا سست دیکھا گیا۔ بہت سے لوگ اب تک ویکسین کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ شمالی جرمن شہر بریمن میں قائم فرائٹ فارورڈ تنظیم سے وابستہ ٹیکلا کہتی ہیں، "ہماری ٹیم میں قریب سب کو پتا ہے کہ کس کس کو ویکسین لگ چکی ہے اور کسے کون سی ویکسین لگی ہے۔"
Published: undefined
ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ خود تو اب تک ویکسین نہیں لگوا پائیں مگر اب انہیں اپوائنٹمنٹ مل چکی ہے اور وہ آئندہ ہفتے میں ویکسین لگوا لیں گی۔
Published: undefined
ان کے مطابق امیونائزشن سے متعلق ادھر ادھر کی نہ ختم ہونے والی بحث اب پرانی باتی ہے۔ انہیں اپنا ویکسینیشن اسٹیٹس اپنے ساتھیوں سے شیئر کرنے میں کوئی عار نہیں۔ وہ کہتی ہیں، "جہاں تک پرائیوسی کا تعلق ہے، میرے خیال میں یہ سوال کہ کیا میں ویکسین لگوا چکی ہوں، پوچھے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔"
Published: undefined
جرمنی میں اس حوالے سے ضوابط واضح نہیں کہ کہ کون یہ سوال پوچھ سکتا ہے۔ جرمنی میں ایسوسی ایشن آف جرمن کمپنی فزیشنز کے صدر ڈاکٹر وولف گانگ پانٹر کے مطابق، "آپ کے باس کو نہ تو یہ حق ہے کہ وہ کہے کہ آپ ویکسین لگوائیں اور نہ ہی اسے یہ حق ہے کہ پوچھے کہ کیا آپ کو ویکسین لگ چکی ہے۔"
Published: undefined
یعنی افسران بالا اپنی کمپنی کے ڈاکٹر سے بھی پوچھ نہیں سکتے کہ کس ملازم نے ویکسین لگوائی اور کس نے نہیں لگوائی۔ کورونا وائرس نے گو کہ دنیا بھر میں ایک ہنگامی حالت پیدا کر دی ہے، تاہم نجی کوائف کے تحفظ کے بنیادی قوانین کم از کم جرمنی میں لوگوں کے لیے نہیں بدلے۔ پانٹر کے مطابق، "تمام ڈاکٹر بہ شمول کمپنی ڈاکٹر اب بھی طبی حوالے سے نجی کوائف کے تحفظ کے پابند ہیں۔ وبا نے اس بنیادی ضابطے کو متاثر نہیں کیا۔"
Published: undefined
پانٹر نے مزید کہا کہ ایسا کوئی قانون نہیں جس کے تحت آپ ہی کے ڈیسک کے دوسری جانب بیٹھنے والا کوئی کولیگ آپ سے یہ دریافت کرنے کا حق رکھتا ہو۔ یعنی اگر آپ اپنا ویکسینیشن اسٹیٹس ظاہر نہیں کرنا چاہتے، تو آپ کو حق حاصل ہے کہ ایسے کسی سوال کا جواب نہ دیں۔ یہ بات تاہم الگ ہے کہ لوگ رضاکارانہ طور پر ہی اپنا ویکسینیشن اسٹیٹس ظاہر کر دیتے ہیں۔
Published: undefined
برسلز میں ایک کمیونیکشن ایجنسی کے لیے کام کرنے والی 33 سالہ ڈورس خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ انہیں ویکسین لگ چکی۔ وہ کہتی ہیں کہ کووِڈ ویکسین کا موضوع کولیگز کے مشترکہ چیٹ گروپ میں آتا رہتا ہے، تاہم وہ اب تک آفس میں ملے نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کولیگز کے درمیان اس معاملے پر ایک طرح سے فرینڈلی کمپیٹیشن (دوستانہ مسابقت) ہے کہ کسے پہلے ویکسین لگے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined