سماج

کمرہء عدالت میں ہیڈاسکارف پہننے پر پابندی جائز، جرمن دستوری عدالت

جرمنی کی اعلیٰ ترین دستوری عدالت نے مراکشی نژاد جرمن خاتون وکیل کی کمرہ عدالت میں ہیڈاسکارف پہننے پر پابندی کو غیردستوری قرار دینے کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔

کمرہء عدالت میں ہیڈاسکارف پہننے پر پابندی جائز، جرمن دستوری عدالت
کمرہء عدالت میں ہیڈاسکارف پہننے پر پابندی جائز، جرمن دستوری عدالت 

جرمن ریاست ہیسے میں وکلاء سمیت تمام عدالتی عملے پر پابندی عائد ہے کہ کوئی کمرہء عدالت میں ہیڈاسکارف نہ پہنے۔ اس پابندی کے خلاف ایک خاتون نے جرمنی کی اعلیٰ ترین دستوری عدالت سے رجوع کیا تھا۔ اس خاتون کا موقف تھا کہ ریاستی حکومت کی جانب سے عائد کردہ یہ پابندی جرمن دستور سے متصادم ہے، تاہم دستوری عدالت نے اس کے برخلاف فیصلہ دیا۔

Published: undefined

جرمنی کی اس اعلیٰ ترین عدالت کے مطابق کمرہء عدالت میں وکلاء اور ٹرینیز کو ہیڈاسکارف پہننے سے روکنا غیرآئینی عمل نہیں ہے۔ مراکشی خاتون کا موقف تھا کہ ریاستی حکومت کی جانب سے عائد کردہ اس پابندی کی وجہ سے اس کے ذاتی اظہار کے حق اور آزادیء مذہب کے اصول کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

Published: undefined

تاہم دستوری عدالت نے کہا کہ ہیڈاسکارف نظریے اور مذہب کی علامت ہے، جب کہ جرمن دستور کے مطابق ریاست کو کسی نظریے یا مذہب کے اعتبار سے غیرجانب دار رہنا ہے، اس لیے ریاستی قانون ساز ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی عائد کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

Published: undefined

اس عدالتی فیصلے میں کہا گیا، ''ریاست پابند ہے کہ وہ غیرجانب دار رہے، مگر ریاست غیرجانب دار نہیں رہ سکتی اگر اس کے حکام خود کو غیرجانب دار ظاہر نہ کریں، کیوں کہ ریاست کی عکاسی افراد کے ذریعے ہوتی ہے۔‘‘

Published: undefined

اس معاملے پر جیوری میں فقط ایک جج اُلرش مائدوسکی نے اس فیصلے کے خلاف ووٹ دیا۔ مائدوسکی کا کہنا تھا کہ ان کی نگاہ میں آزادیء مذہب کو دستوری قانون کے تحت جانچا نہیں جا سکتا۔

Published: undefined

واضح رہے کہ سن 2017 میں ہیسے صوبے میں مراکشی نژاد جرمن خاتون نے وکالت کی قانونی تربیت لینا شروع کی، تو انہیں بتایا گیا کہ وہ کمرہء عدالت میں ہیڈاسکارف پہن کر نہیں آ سکتیں۔ انہوں نے ان ہدایات کے خلاف ہیسے صوبے کی اعلیٰ انتظامی عدالت سے رجوع کیا، مگر مقدمہ ہار گئیں۔ اس کے بعد وہ یہ معاملہ جرمنی کی دستوری عدالت میں لے گئیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined