سماج

ایران میں آوارہ کتوں کی پناہ گاہ کے مالک، ایک مذہبی شخص

ایران کے ایک معروف عالم انسٹا گرام پر اپنے نوجوان مداحوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے معاشرے میں نظر انداز کیے جانے والے اور بدسلوکی کے شکار کتوں کی دل دہلا دینے والی کہانیاں پیش کر رہے ہیں۔

ایران میں آوارہ کتوں کی پناہ گاہ کے مالک، ایک مذہبی شخص
ایران میں آوارہ کتوں کی پناہ گاہ کے مالک، ایک مذہبی شخص 

سید مہدی طباطبائی اسلامی جمہوریہ ایران کی ایک غیر معمولی اور انتہائی دلچسپ شخصیت بنتے جا رہے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں پگڑی اور دستار میں ملبوس کسی عالم کے لیے انسٹا گرام پر نوجوان مداحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا ان دنوں بہت مشکل عمل مانا جاتا ہے، سید مہدی طباطبائی کے ہزاروں انسٹا گرام فالوورز ہیں۔

Published: undefined

انسٹا گرام پر ایک ہیرو

انسٹا گرام پر زیادہ سے زیاد نوجوانوں کو اپنی طرف راعب کرنے کے لیے سید مہدی طباطبائی گلی کوچوں کے آوارہ کتوں کو بچاتے، انہیں پالنے، ان کی دیکھ بھال کرتے اور ان کی کہانیاں انسٹا گرام پر سناتے ہیں۔ ان کا یہ عمل ایرانی نوجوانوں کی غیر معمولی دلچسپی کا باعث بنا ہے۔

Published: undefined

طباطبائی اپنے 80,000 سے زیادہ فالوورز کے لیے باقاعدگی سے پوسٹ کرتے ہیں۔ ان کے پاس بدسلوکی کا شکار اور نظر انداز کردہ کتوں کی دل دہلا دینے والی کہانیاں ہوتی ہیں۔ ان کتوں کو وہ نہ صرف پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں بلکہ ان کا علاج بھی کرتے ہیں۔ انسٹا گرام پر ان کے مداح ان کے اس پراجیکٹ کی اپ ڈیٹس مانگتے رہتے ہیں اور انہیں موصول ہونے والے سینکڑوں تبصروں میں نیک خواہشات بھیجیتے رہتے ہیں۔ ان کی تقریباً ہر پوسٹ پر بے شمار تبصرے ملتے ہیں۔

Published: undefined

کتے اور مسلم معاشرہ

مسلم دنیا کے زیادہ تر حصوں میں کتوں کو ناپاک سمجھا جاتا ہے۔ کوئی بھی سے اپنے قریب آنے نہیں دیتا۔ کتوں کو عوماً چیخ و پکار، لاٹھیوں اور پتھروں سے بھگا دیا جاتا ہے اور بعض اوقات شہر کے کارکنوں کی طرف سے جنگلی آبادی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کے طور پر کتوں کو گولی بھی ماری جاتی ہے۔

Published: undefined

ایران کی حکمران مذہبی حکومت پالتو کتوں کو مغربی معاشروں کی زوال پذیری کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس ملک کے سخت گیر عناصر عوامی مقامات پر کتوں کو ساتھ لے کر چہل قدمی پر پابندی کے قوانین پر زور دے رہے ہیں۔

Published: undefined

سید مہدی لیکن ایک استثنا

سید مہدی طباطبائی کو البتہ شہر میں کتوں کی پناہ گاہ کھولنے سے نہیں روکا گیا۔ وہ بھی شہر قُم میں جو بڑے دینی مدارس اور مزارات کا گڑھ اور اہل تشیع افراد میں انتہائی مقدس شہر کی حیثیت رکھتا ہے۔ طباطبائی اس شہر میں گلیوں کوچوں کے آوارہ کتوں کو پالتے اور ان کی صحت و بقا کے لیے خود کو وقف کیے ہوئے ہیں۔ ایران جیسے معاشرے میں جو عوامی زندگی میں مذہب کے کردار اور عمل دخل کے اعتبار سے منقسم ہے، سید مہدی طبا طبائی معاشرے میں جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے ایک غیر متوقع وکیل بنے ہوئے ہیں۔

Published: undefined

طباطبائی معاشرے میں پائی جانی والی تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ وہ اپنی ویڈیوز انسٹاگرام پر پوسٹ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ عوام کے لیے کسی مذہبی شخصیت کو اس طرح کا کسی کام کرتے دیکھنا دلچسپ اور عجیب و غریب سا احساس ہے، '' میری ویڈیوز سے عوام پر ایک اچھا اثر پڑ رہا ہے۔‘‘ طباطبائی مزید کہتے ہیں، ''عوام ان ویڈیوز کے ذریعے مہربانی، امن، اور دوستی محسوس کرتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

مذہبی حلقوں کی طرف سے مشکلات کا سامنا

طباطبائی کی سوچ اور ان کے اس عمل نے انہیں حکام کی طرف سے مشکلات میں بھی ڈالا ہے۔ خاص طور پر جب روایتی مذہبی لباس میں کتوں کی پرورش اور دیکھ بھال کرتے ہوئے ان کی تصاویر منظر عام پر آئیں تو مذہبی کورٹ نے 2021ء میں انہیں مذہبی منصب کے فرائض ادا کرنے کے حق سے محروم کرنے کا حکم دیا۔ اس عدالتی حکم نامے کو بعد ازاں معطل کر دیا گیا تھا تاہم وہ اب بہت محتاط ہو گئے ہیں۔ ان دنوں سید مہدی طباطبائی کتوں کی دیکھ بھال اور صفائی وغیرہ کے دوران عام لباس پہنے رہتے ہیں۔

Published: undefined

دو سال قبل انہوں نے کتوں کے لیے ''بامک بہشت‘‘ کے نام سے جو سینٹر قائم کیا تھا، اُس کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ہم ایسے معذور کتوں کو پالتے ہیں، جو جنگل میں زندہ نہیں رہ سکتے اور ان کے لیے گود لینے والے گھر تلاش کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ ان میں سے بہت سے وہ کتے ہیں جنہیں میں نے ذاتی طور پر صحت مند کرنے کے لیے پالا ہے۔ وہ یہاں مکمل طور پر صحت یاب ہونے تک رہتے ہیں اور اپنی توانائی دوبارہ حاصل کر لیتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined