سماجی

طنز و مزاح: شور نالہ نہ سہی شور سلاسل ہی سہی... تقدیس نقوی

شام کے 5 بجتے ہی جب مشرا جی کو ان کی بالکنی پر ایک بیلن سے زور زور سے تھالی بجاتے ہوئے دیکھا تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ یہ وہی مشرا جی تھے جو ہمیشہ بیلن کا نام آتے ہی تھرتھر کانپنے لگتے تھے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

سیاست میں اور جھگڑے کے دوران شور مچانا بہت مفید اور مؤثرمانا جاتا ہے۔ جتنی زیادہ کسی فریق کی شور مچانے کی صلاحیت اتنے ہی زیادہ اس کے اپنے مقابل فریق پرحاوی آجانے کے امکان روشن ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی اپنے کمزور موقف میں وزن بڑھانے کی خاطر اور کبھی کبھی بس یونہی شوقیہ بھی شور مچایا جاتا ہے۔ ہمارے تہوار زدہ معاشرہ میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ شور مچانا کچھ لوگوں کا اک باقاعدہ شوق بن چکا ہے جس کی وہ وقتاً فوقتاً موقعہ ملتے ہی پریکٹس بھی کرتے رہتے ہیں۔

Published: undefined

عموماً مختلف آلات موسیقی جیسے ڈھول، تاشے، نقارے شور مچانے اور آتش شوق کو بھڑکانے میں بہت معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اور اگر یہ سب کچھ بھی میسر نہ ہو تواس عالمی مقبولیت یافتہ شوق کی تسکین کے لئے گھر کی رسوئی کے کچھ آلات جیسے بیلن، چمچے اور تھالی بھی حسب ذوق استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

Published: undefined

فوجی سازو سامان سے زیادہ مہلک یہ وہ آلات ہیں جنھیں کچھ بے بس ولاچار شوہر اپنی بیویوں کے ذریعہ ان کے خلاف استعمال کیے جانے کے سبب صدیوں سے تعزیرات ہند کے تحت مہلک ہتھیاروں اور اسلحہ کے زمرے میں شامل کیے جانے کی مانگ کرتے رہے ہیں۔ لیکن پارلیمنٹ میں خطرناک رفتار سے بڑھتی ہوئی خواتین کی تعداد کے پیش نظر شوہروں کی یہ دیرینہ خواہش شرمندۂ تعبیر ہوتی نظر نہیں آرہی۔

Published: undefined

کچھ دن قبل تک تو یہ بظاہر بے ضرر نظر آنے والے بیلن، چمچے اور تھالی بیویوں کی ہی ملکیت تصور کیے جاتے تھے جنھیں وہ اپنے شوہروں کو اپنا مطیع بنائے رکھنے کے لئے استعمال کرتی رہی ہیں مگر آج کل جاری ’’کورونا وائرس‘‘ کے بحران کے دوران حال ہی میں حکومت کی جانب سے نافذ کیے گئے جنتا کرفیوکے 'محترم تہوار' کے موقع پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ یہ آلات حرب گھر کے باہر بھی خاطر خواہ شور مچانے اور آس پڑوس کا سکون درہم برہم کرنے کے کام میں لائے جاسکتے ہیں۔

Published: undefined

پہلے شور مچانے کے لئے کافی تام جھام کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی مگر اس 'جنتا کرفیو' کے دوران یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ اب یہ کام صرف اک تھالی کو بیلن یا چمچے سے پیٹ کر بھی بخوبی انجام دیا جاسکتا ہے، جس کی آواز پوری دنیا کے کونے کونے میں بہ آسانی پہنچائی جاسکتی ہے۔ اس جنتا کرفیو کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ اب تک جن بیلنوں اور تھالیوں کا ہدف صرف مظلوم شوہر تھے وہ کسی ایک کال پر پورے ملک کے شہریوں کا سکون تباہ کرنے لئے بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں جس کی عام شہری کسی سے شکایت بھی نہیں کرسکتے۔ اس تجربہ کی بے انتہا کامیابی کے پیش نظر ممکن ہے کہ حکومت بہت جلد ان 'تھالی بیلن بریگیڈیئر' کو ملک کی سرحدوں پر بھی تعینات کرنے کا فیصلہ کر لے تاکہ اس کے شور سے دشمن کی فوجیں دم دبا کر اپنی اپنی بیرکوں میں واپس چلی جائیں۔ گولی سے مرنے کی تکلیف ایک بار اور یکلخت ہوتی ہے جس کے لئے ہر فوجی ہر وقت تیار رہتا ہے مگر تھالیوں کے اس شور سے قسطوں میں مرنے کے لئے کوئی بھی ہرگز تیار نہیں ہوگا۔ ہم عام شہریوں کی تو شہری مجبوری تھی۔

Published: undefined

اس کرفیو کے دوران جن لوگوں کواپنے اندرون خانہ ناگفتہ بہ حالات کے تحت اس شوق کو پورا کرنے کے مواقع اپنی بالکنی یا کھڑکی میں کھڑے ہو کر میسر نہیں ہو پائے وہ اپنا یہ شوق پورا کرنے کے لئے اپنے گھروں سے باہر نکل کرسڑکوں اور گلیوں میں چلے ائے اور بے دریغ اپنے پڑوسیوں اور محلے والوں سے سرعام اپنا پرانا حساب چکتا کرنے لگے۔ قوم پرستی کی لے پر بجتی ہوئی یہ تھالیاں اور کٹورے جنم آشٹھمی کے مقدس جلوس میں بجائے جانے والے ڈھول، تاشوں سے زیادہ قابل احترام سمجھے جارہے تھے۔ جن لوگوں کو ان متبرک آلات تک اپنی کوتاہیوں اور مجبوریوں کے باعث رسائی ممکن نہ تھی وہ ٹی وی اسکرین پر ہی انھیں دیکھ کر ان کی آرتی اتار رہے تھے۔ ان جلوسوں میں شامل نہ ہونے کی مجبوری میں اس اجتماعی شور مچانے کے مقدس کام میں شرکت نہ کرنے والے ان محروم لوگوں میں ہمارے پڑوسی مشرا جی بھی شامل تھے۔

Published: undefined

شام کے پانچ بجتے ہی ہم نے جب مشرا جی کو ان کی بالکنی پر ایک بیلن سے زور زور سے تھالی بجاتے ہوئے دیکھا تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ یہ وہی مشرا جی تھے جو ہمیشہ بیلن کا نام آتے ہی تھرتھر کانپنے لگتے تھے وہ آج اسی بیلن کو اپنے ہاتھوں سے استعمال کر رہے تھے۔ یہ تو وہی مثال ہوگئی کہ گھوڑا اپنے چابک کو اپنے پاؤں میں باندھ کر رقص کرنے لگے۔

Published: undefined

کل تک جو بیلن مشرانی کے ہاتھ میں خونخوار شمشیر کی طرح ماہرانہ انداز میں چلتا دیکھا تھا اور جس کی کاریگری کے اثرات متعدد بار مشرا جی ہمیں اپنی پیٹھ کھول کر دکھا چکے تھے وہی بیلن آج مشرا جی کی گرفت میں تھا۔ مشرا جی جتنی طاقت اور زور سے بیلن تھالی پر مار رہے تھے اس سے معلوم ہو رہا تھا گویا وہ اس بیلن کی ساری عمر اپنی کمر پر پڑتی ضربوں کا آج ہی پورا بدلہ نکال لیں گے۔ ایک بار مشرا جی کی بیلن سے درگت بننے کے بعد ہم نے ان سے سوال کیا تھا کہ مشرا جی ایسے جنگ و جدال کے ماحول میں بھی آخر آپ خوش کس طرح رہتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا تھا۔ "بھائی کبھی کبھی ان کا نشانہ چوک بھی تو جاتا ہے۔ بس وہی دن ہماری خوشی کا دن ہوتا ہے"

Published: undefined

یہ بھی دیکھا گیا کہ ان چہکتے گاتے جلوسوں میں کچھ وہ لوگ بھی شامل ہوگئے تھے جو پرامن حالات میں بھی اپنی بات شور مچا کر ہی کرنے کے عادی ہیں۔ ویسے بھی شور مچانے کے لئے کسی مضبوط اور پھٹا گلا ہونے کی بھی شرط نہیں ہوتی۔ کچھ مقامات پر تو ان جلوسوں کی باقائدہ قیادت قانون کے رکھوالوں نے سنبھالی ہوئی تھی تاکہ اس ہنگامہ کو قانونی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ یوں بھی باقاعدہ اور منظم طریقہ سے شور مچانے کے لئے کسی خاص تعلیم و تربیت یا استاد کی بھی چنداں ضرورت نہیں ہوتی بلکہ تعلیم و تربیت اور آداب و تہذیب تو اس فن کی ترقی اور ترویج میں زہر ہلاہل تصور کیے جاتے ہیں۔

Published: undefined

دراصل اس جنتا کرفیو کے ذریعہ کچھ مہذب ممالک کی دیکھا دیکھی ملک کے تمام باشندوں سے ایک مخلصانہ اور ہمدردانہ اپیل یہ کی گئی تھی کہ وہ ایک مخصوص دن اور وقت پر اپنی اپنی قیام گاہوں کے اندر رضاکارانہ طور سے محصور رہتے ہوئے کچھ دیر کے لئے تالیاں یا تھالیاں بجا کر اپنے ملک کے ان حقیقی ہیروز کے تئیں خراج تحسین پیش کریں جو رات دن کورونا وائیرس کے مریضوں کی خبر گیری کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس اپیل کا جواب تو بڑا والہانہ اور پرجوش نظر آیا مگر موت کے سایوں میں بھی ڈھول تاشے بجانے والوں نے اس اپیل کی روح کو ایک فلک شگاف اور سماع خراش شور شرابے کے ساتھ سڑکوں اور چوراہوں پر لے جاکر کچل دیا اوراس کے نتیجہ میں ہاتھ صرف 'تھالی کے بیلن' لگے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined