سماجی

طنزومزاح: دو کشتیوں میں سوار– دلّی کے مانجھی... تقدیس نقوی

کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ اگر ایک کشتی میں سوار ہوکر دریا پار کرنا مشکل ہو تو دو کشتیوں میں سوار ہو جانا چاہیے۔ ان کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر ایک کشتی ڈوبی تو دوسری کشتی ضرور کسی ساحل تک پہنچا دے گی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

ہمارے میر صاحب دہلی کے الیکشن کے نتائج آنے تک ریاست دلی کے قائد کے بڑے مداح تھے اور ان کی طرح سردی گرمی برسات میں گلے میں مفلر لپیٹے پوری دلی میں گھومتے پھرتے تھے۔ مگر گذشتہ چند ہفتوں میں نہ جانے انھوں نے ایسا کیا دیکھا کہ وہ ریاست دہلی میں برسر اقتدار پارٹی کی بیچ دریا میں ڈوبتے ہوئے ’بچاو بچاؤ‘ والی آوازیں بہت جلد سنائی دے جانے کی پیشین گوئی کرنے لگے ہیں۔

Published: 08 Mar 2020, 9:11 PM IST

ہم نے بہت سمجھایا کہ جناب تھوڑا صبرو تحمل سے کام لیں۔ سیاست میں اور اِنکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ سیاست میں کچھ ایڈجسٹمنٹس کرنا پڑتے ہیں۔ بلکہ کچھ ایڈجسٹمنٹس تو سیاسی بقا کے لئے ناگزیر ہوجاتے ہیں۔ اب یہ کوئی ’لوک پال آندولن‘ تھوڑی ہے کہ جہاں صرف نعروں سے کام چلایا جاتا تھا۔ سیاست میں آگے پیچھے دائیں بائیں سب طرف دیکھ کر چلنا پڑتا ہے۔ جسے لوگ موقع پرستی سے تعبیر کر رہے ہیں، سیاست میں وہ سیاسی سوجھ بوجھ، تدبر اور دوراندیشی سمجھی جاتی ہے۔

Published: 08 Mar 2020, 9:11 PM IST

ہر لیڈر کو سیاسی پینترے بازی اور جوڑ توڑ کرنے کا فن سیکھنے لئے کچھ وقت تو درکار ہوتا ہے۔ جھاڑو پکڑنا آسان ہوتا ہے مگرجھاڑو پھیرنے کے فن پر پوری طرح دسترس حاصل کرنے میں کافی جوڑ توڑ کرنا پڑتے ہیں۔ اب جب دلی حکومت کی کشتی کے مانجھی کو اس فن پر مکمل عبور حاصل ہوچکا ہے توعوام یہ تبدیلی دیکھ کر بلا وجہ چراغ پا ہو رہی ہے۔ آپ ذرا اپنے انّا جی کو ہی دیکھ لیجیے۔ وقت اور حالات کے ساتھ کتنی خاموشی اور سلیقہ سے ایڈجسٹمنٹس کر رہے ہیں یا نہیں۔

Published: 08 Mar 2020, 9:11 PM IST

دلّی کے قائدین کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ مرکز جیسے ہی مدھیہ پردیش اور راجستھان میں ’سوچھتا ابھیان‘ سے فارغ ہوگا فوراً دہلی کی ٹوٹی پھوٹی دہلیز کی مرمت شروع کرنے لگے گا۔ ملکی سدھار کے لئے اگر کچھ تھوڑا بہت پیسہ خرچ بھی ہوجائے تو کیا برا ہے۔ نوٹ بندی کے بعد سے یہ کروڑوں روپئے کس دن کے لئے پڑے سڑ رہے ہیں۔ بس اسی خطرے کی بو سونگھتے سونگھتے ان لوگوں نے مرکز کی خاطر مدارات شروع کردی اور لکھنؤ کی تہذیب کو دلّی میں آزماتے ہوئے’’پہلے آپ، پہلے آپ‘‘ کہہ کہہ کر اپنی خیر وعافیت کے لئے مہذبانہ عرضی داخل کرادی ہے۔

Published: 08 Mar 2020, 9:11 PM IST

پہلے وہ ایک کشتی میں ’سیکولرزم‘ کا نعرہ لگانے والوں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے ان کے ساتھ سوار ہوگئے تھے اور دلی کی سیاست کی کشتی کو کنارے کے قریب لانے میں کافی کامیاب نظر آنے لگے تھے جس کے باعث دلّی کی عوام نے معصومانہ انداز سے ان سے ہزاروں امیدیں باندھنی شروع کردی تھیں۔ مگر پھر باد مخالف کے تند و تیز جھونکوں سے گھبرا کر وہ پہلی کشتی میں لڑ کھڑاتے ہوئے ان کا تعاقب کرتی ہوئی اک دوسری ’نرم ہندوتوا‘ کی کشتی میں چھلانگ لکا کر سوار ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ شاید ابھی تک وہ دو کشتیوں میں سفر کرنے والوں کے انجام سے ناواقف ہیں۔ یہ اور بات ہے جسے وہ سیاسی مصالحت یا دوراندیشی سے تعبیر کر رہے ہیں سیاسی پنڈت اسے ’’خودکشی‘‘ گردان رہے ہیں۔

Published: 08 Mar 2020, 9:11 PM IST

ان کے ناقدین بلاوجہ بس اتنی سی بات پر آسمان سر پر آٹھا رہے ہیں کہ اس الیکشن سے پہلے انھوں نے ہنومان چالیسہ کیوں یاد کرکے نہیں سنایا تھا جبکہ ان کی آواز اس وقت بھی اتنی ہی سریلی تھی جتنی اس الیکشن میں رہی تھی۔ شاید ان کا جواب ہوگا کہ ہنومان چالیسہ یاد کرنے میں تو کسی کو بھی زیادہ وقت نہیں لگتا مگر اس کو مناسب وقت پر اور جنتا سے پوشیدہ رکھتے ہوئے اسے مؤثر طریقہ سے پڑھنے اور اسے استعمال کرنے کا فن حاصل کرنے میں بہت وقت درکار ہوتا ہے۔ اسی لئے انہیں بھی پورے پانچ برس لگ گئے۔ مگر ان کا کمال یہ ہے کہ اس کی انہوں نے جنتا کو ہوا تک نہیں لگنے دی۔

Published: 08 Mar 2020, 9:11 PM IST

گزشتہ دنوں ریاست میں کچھ ’چھوٹے موٹے‘ دنگے سننے میں آئے۔ سنا ہے کچھ لوگ مرے بھی ہیں۔ خیر مرتے تو لوگ روز ہی ہیں یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے جس کے لئے وزیر اعلیٰ جیسی بڑی شخصیت سڑکوں پر ماری ماری پھرے۔ آخر آفس ڈیکورم بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ انہیں حال ہی میں دہلی میں ہوئے دنگوں کے متعلق ٹی وی سے خبریں سننے پراس لئے اکتفا کرنا پڑا کہ انہیں وہ سب کچھ دیکھنے کے لئے ان دنگا زدہ مقامات پر بذات خود جانا پڑتا۔ جس کے لئے انہیں سرپر ہیلمٹ پہننا ضروری ہوتا جو مفلر کے ساتھ کسی طور بھی سوٹ نہیں کرتا۔

Published: 08 Mar 2020, 9:11 PM IST

ریاست میں جب دنگوں کو سنبھالنے اور ان کا باقاعدہ اہتمام کرنے کا ذمہ پولیس نے اٹھا رکھا ہے تو پھرایک تنہا مکھیہ منتری بھلا پولیس کی حسن کارکردگی کی تعریف اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے علاوہ آخر کر بھی کیا سکتا ہے۔ اب جب کہ ہر طرف شانتی ہے اور دلّی کی خاکستر بستیوں کی راکھ پر بغیر کسی خوف و خطر کے چلنا آسان ہے دلّی حکومت کی پوری ٹیم ہر طرف بلا جھیجھک گھوم رہی ہے۔ اسے کہتے ہیں قومی خدمت کا جذبہ۔ بھلا اب ایسے کٹھن وقت میں جب دلّی کی جنتا کو اپنی منتخب حکومت کی ضرورت ہے تو کیا وہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی۔

Published: 08 Mar 2020, 9:11 PM IST

یہ دلی والے بھی روز نت نئی فرمائشیں لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ الیکش کیا جتا دیا پوچھتے پھر رہے ہیں ’’یہ ہمارے لیڈر کی آواز کیوں نہیں نکل رہی۔ اب تو اتنی سردی بھی نہیں ہے اور سڑکوں پر نعرے لگائے ہوئے بھی برس ہوگئے ہیں جو گلا صاف کرنے کی ضرورت پڑجائے‘‘

Published: 08 Mar 2020, 9:11 PM IST

سنا ہے ان دنگوں کے دوران کچھ الھڑ بچوں نے شرارتاً سی سی ٹی کیمرے توڑ دیئے تھے۔ مگر مجال ہے جو ان کی زبان سے اک اُف بھی نکلی ہو۔ بس وہ یہی کہتے رہے کہ جس نے بھی یہ کیمرے توڑے ہیں وہ بھی اپنے ہی بچے ہیں۔ بچوں کی عادت تو شرارت کرنے کی ہوتی ہی ہے۔ حالات ٹھیک ہوتے ہی نئے کیمرے لگوا دیئے جائیں گے۔

Published: 08 Mar 2020, 9:11 PM IST

انہوں نے یہ بات بالکل اسی طرح کہی جیسے اک منحنی کمزور سے شخص نے اس وقت کہی تھی جب اس کو ایک بہت طاقتور پہلوان نے دو چار ہاتھ رسید کردیئے تھے۔ مار کھاکراس بے بس انسان نے بظاہر اپنی کمزوری چھپاتے ہوئے اس پہلوان سے پوچھا ’’پہلوان جی آپ نے یہ دوچار ہاتھ مجھے مذاق میں مارے ہیں یا سنجیدگی میں‘‘۔ پہلوان بھی کافی سیانا تھا سینہ تان کرکہنے لگا ’’سنجیدگی میں مارے ہیں، تم سے جو ہوسکے وہ کرلو‘‘

Published: 08 Mar 2020, 9:11 PM IST

یہ سن کر وہ نحیف و ناتوان جان یہ کہتے ہوئے وہاں سے کھسک گیا کہ ’’چلو پھر ٹھیک ہے۔ کیونکہ مجھے مذاق بالکل پسند نہیں ہے‘‘۔

Published: 08 Mar 2020, 9:11 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 08 Mar 2020, 9:11 PM IST

,
  • ’بی جے پی نے نوجوانوں کو دھوکہ دیا‘، کانگریس امیدوار آنند شرما نے کانگڑا میں کی انتخابی مہم کی شروعات

  • ,
  • لوک سبھا انتخاب 2024: ’زمین پر حالات بدل رہے ہیں...‘، جگنیش میوانی سے امئے تروڈکر کا انٹرویو