وفاقی جرمن وزیر صحت ژینس شپاہن نے پیر یکم اپریل کو جس نئے جرمن قانون کا ابتدائی مسودہ پیش کیا، اس کا مقصد ملک میں انسانی اعضاء کے عطیہ کیے جانے کی موجودہ غیر تسلی بخش صورت حال کو بہتر بنانا ہے۔ جرمنی میں جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، کافی عرصے سے بیمار افراد کو پیوند کاری کے لیے مختلف انسانی اعضاء کی جتنی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لیے دستیاب اعضاء مجموعی قومی ضروریات سے بہت کم ہوتے ہیں۔
Published: undefined
یہ نیا مسودہ قانون دراصل اس شعبے میں اب تک مروجہ قانون میں اصلاحات کی ایک کوشش ہے، لیکن اس کی وجہ سے ملک میں ایک نئی اور بہت بھرپور بحث بھی شروع ہو گئی ہے۔ جرمنی میں عام شہریوں کی طرف سے اپنے جسمانی اعضاء عطیہ کیے جانے کی شرح کافی کم ہے اور اب تک رائج قانون کے تحت جو لوگ بعد از مرگ اپنے اعضاء عطیہ کرنا چاہتے ہیں، وہ اپنی زندگی میں ہی ان آئندہ عطیات کی اجازت دے دیتے ہیں۔
Published: undefined
اس کے برعکس نئے مسودہ قانون کی منظوری کی صورت میں اس ملک کا ہر مستقل رہائشی خود بخود انسانی اعضاء کا عطیہ کنندہ بن جائے گا اور جو ایسا نہیں کرنا چاہے گا، اسے درخواست دے کر اپنا نام اس فہرست سے نکلوانا پڑا کرے گا۔
Published: undefined
Published: undefined
اس مسودہ قانون کے تحت انسانی اعضاء کے عطیات کے لیے ایک ’دوہرا آپٹ آؤٹ‘ نظام متعارف کرانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یوں جرمنی میں ہر شہری اور اس ملک میں مستقل طور پر رہائش پذیر ہر غیر ملکی خود بخود اس نظام کا حصہ بن جائے گا اور ایک رجسٹرڈ ’آرگن ڈونر‘ ہو گا۔
Published: undefined
عام شہریوں کو یہ اختیار بھی حاصل ہو گا کہ وہ ایک درخواست دے کر اپنے انسانی اعضاء کے عطیہ کنندہ ہونے سے انکار کر سکیں۔ یہ فہرست ایسے شہریوں کی لسٹ ہو گی، جو اپنے جسمانی اعضاء عطیہ نہیں کرنا چاہیں گے۔
Published: undefined
اسی قانون کے تحت کسی بھی شہری کے اہل خانہ کو بھی یہ اختیار ہو گا کہ وہ اپنے کسی بھی رکن کی طرف سے جسمانی اعضاء عطیہ کیے جانے کے خلاف درخواست دے سکیں۔ مزید یہ کہ کسی بھی ایسے شہری کے جسمانی اعضاء عطیہ کیے جانے سے قبل متعلقہ شخص کی ذہنی موت کی صورت میں ڈاکٹروں کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ متوفی کے اہل خانہ کی رضامندی بھی حاصل کریں۔
Published: undefined
اس مجوزہ قانون کی منظوری کے بعد جب یہ نافذ ہو جائے گا، تو عام شہریوں کو کئی بار اس بارے میں مطلع کیا جائے گا کہ ان کے اپنے اعضاء عطیہ کرنے والے افراد کے طور پر رجسٹر ہو گئے ہیں اور اگر وہ اس پر کوئی اعتراض کرنا چاہیں، تو ایسا کر سکتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined