سائنسی جریدے ’نیچر سائنٹیفک رپورٹس‘ میں شائع ہونے والے ایک جائزے کے مطابق وہ افراد، جن کی جینیات میں کھٹے اور تلخ ذائقوں کا ادراک پہلے سے موجود ہوتا ہے وہ کافی میں ’ٹارٹ کیفین‘ کی موجودگی کے سبب اسے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
Published: undefined
انسان نے جیسے جیسے ارتقائی مراحل طے کیے اس کے اندر تلخ ذائقوں کو پہچاننے کی صلاحیت بھی بڑھتی چلی گئی۔ یہ ایک طرح سے اس کے جسم میں ضرر رساں مادوں سے بچنے کے لیے ایک الارمنگ سسٹم تھا۔ اگر ہم ’امیریکانو‘ نامی کافی کی بات کریں تو ارتقائی تناظر میں ہمیں اسے چکھتے ساتھ ہی واش بیسن میں تھوک دینا چاہیے۔
Published: undefined
لیکن ایک مظاہرے میں ایسے افراد نے، جو کیفین کے زیادہ تلخ ذائقے کے بارے میں حساس تھے، کافی کو چائے پر ترجیح دی اور اسے زیادہ مرتبہ نوش کیا۔
Published: undefined
نارتھ ویسٹرن فائن برگ اسکول آف میڈیسن کی پروفیسر میری لین کورنیلیز کے مطابق،’’ آپ کو توقع ہو گی کہ وہ لوگ جو کیفین کے ذائقے کے لیے حساس ہیں، کم کافی پیتے ہوں گے۔ ہماری تحقیق کے نتائج اس کے برعکس ہیں۔‘‘
Published: undefined
برطانیہ میں چار لاکھ سے زائد مرد و خواتین پر کی گئی اس تحقیق میں محققین نے یہ بھی پتہ لگایا کہ وہ افراد جو کونین اور سبزیوں کے مرکبات کے تلخ ذائقوں کے لیے حساس تھے، انہوں نے کافی کے مقابلے میں چائے کو ترجیح دی۔
Published: undefined
کوئینز لینڈ ڈائمنٹینا انسٹیٹیوٹ یونیورسٹی کے پروفیسر اور اس مطالعے کے شریک مصنف لیانگ دار وانگ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ حقیقت کہ بعض لوگ کافی کو چائے پر ترجیح دیتے ہیں، اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ جب بات ذائقے کی ہو تو کس طرح روز مرہ تجربات جینیاتی رحجانات کو مسترد کر دیتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا،’’ تلخ ذائقوں کو محسوس کرنا نہ صرف جینیاتی بلکہ ماحولیاتی عوامل پر بھی منحصر ہوتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: محمد تسلیم