پریس ریلیز

کسی تحریک کو طَاقت کے زور سے کچلا نہیں جا سکتا: مولانا ارشد مدنی

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ احتجاج شہریوں کا جمہوری حق ہے، رہا سوال یہ کہ احتجاج کے دوران تشدد کیوں ہوا اور اس کے پیچھے کون ہے؟ اس کی آزادانہ اور منصفانہ تحقیق ہونی چاہیے

مولانا ارشد مدنی
مولانا ارشد مدنی سوشل میڈیا 

نئی دہلی: گزشتہ شب جامعہ کے طلباء وطالبات کے ساتھ دہلی پولس کے وحشیانہ سلوک کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے آج اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم تشدد کے خلاف ہیں خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو، لیکن قانون کی دہائی دیکر اور امن وامان قائم کرنے کی آڑ میں دہلی پولس نے جامعہ کیمپس کے اندر گھس کر نہتے طلباء وطالبات کے ساتھ جو کیا وہ ظلم اور جبر ہے اور ہم اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

Published: 16 Dec 2019, 6:11 PM IST

انہوں نے کہا کہ احتجاج شہریوں کا جمہوری حق ہے، رہا سوال یہ کہ احتجاج کے دوران تشدد کیوں ہوا اور اس کے پیچھے کون ہے؟ اس کی آزادانہ اور منصفانہ تحقیق ہونی چاہیے، مولانا مدنی نے کہا کہ جامعہ کے طلباء شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پچھلے کئی روز سے پرامن احتجاج کر رہے تھے اور پولس اپنی عادت کے مطابق ان کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کر رہی تھی اس وقت طلباء نے قانون اپنے ہاتھ میں کیوں نہیں لیا؟ تب کسی طرح کا کوئی تشدد کیوں نہیں ہوا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا دہلی پولس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

Published: 16 Dec 2019, 6:11 PM IST

تشددکے تعلق سے سوشل میڈیا پر کچھ ایسے ویڈیوز وائرل ہوئے ہیں جو اس سچائی سے ازخود پردہ اٹھا دیتے ہیں کہ کچھ دوسرے لوگ بسوں میں آگ لگا رہے ہیں اور پولس وہاں موجود ہے، آخریہ کون لوگ ہیں؟ یہ طلباء تو ہرگز نہیں ہیں، اس کا پتہ لگایا جانا بہت ضروری ہے۔

Published: 16 Dec 2019, 6:11 PM IST

جامعہ کی طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھ بھی پولس نے ظالمانہ سلوک کیا ہے وہاں بھی یونیورسٹی کیمپس کے اندرگھس کر انہوں نے طلباء کو بے رحمی سے زدوکوب کیا ہے ہم اس کی بھی مذمت کرتے ہیں، انہوں نے سوال کیا کہ کیا ایک جمہوری ملک میں اب احتجاج کرنا بھی جرم ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ان لوگوں کو جو اب اقتدار میں ہیں یہ اعلان کردینا چاہیے کہ ملک میں اب کسی طرح کا پرامن احتجاج بھی نہیں ہوسکتا۔ جمعیۃعلماء ہند قانون کی حکمرانی کی قائل ہے اور اس بات کے سخت خلاف ہے کہ کوئی شخص قانون ہاتھ میں لے لیکن جامعہ اور علی گڑھ میں پولس نے جو یکطرفہ کارروائی کی وہ ظلم ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔

Published: 16 Dec 2019, 6:11 PM IST

جامعہ کیمپس میں پولس کسی اجازت کے بغیر داخل ہوئی جس کا اعتراف وہاں کے پراکٹر نے بھی کیا ہے طلباء کے رہائشی کیمپس میں داخل ہونے کے لئے گیٹ توڑ دیا گیا اور اس وقت جو ہندومسلم طلباء وطالبات اپنے کمروں میں موجود تھے انہیں انتہائی بے رحمی سے مارا گیا، آخر کون سا قانون پولس کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہاسٹل اور لائبریری میں پناہ لینے والے نہتے طلباء وطالبات پر وہ اس طرح ظلم ڈھائے، اگر تشدد ہوا ہے تو اس کی منصفانہ جانچ ہونی چاہیے اور جو لوگ خطاوار پائے جائیں انہیں سزاملنی چاہیے لیکن اس کو بنیاد بناکر پولس نے جس درندگی اور بربریت کا مظاہرہ کیا اس کی اجازت نہ توکوئی قانون دیتا ہے اور نہ ہی کوئی مہذب معاشرہ، جمعیۃعلماء ہند مصیبت کی اس گھڑی میں طلباء برادری کے ساتھ کھڑی ہے۔

Published: 16 Dec 2019, 6:11 PM IST

مولانا مدنی نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تنہا جامعہ یا علی گڑھ میں ہی احتجاج نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں ہندومسلم، سکھ عیسائی مل کر شدید احتجاج کر رہے ہیں، مولانا مدنی نے کہا کہ یہ قانون ہندومسلم کا مسئلہ ہرگز نہیں ہے بلکہ ملک کی آزادی کے بعد بنائے ہوئے سیکولر دستور کے مقابلہ ہندو راشٹر بناکر تمام اقلیتوں کو اس کے ماتحت بنانے کا مسئلہ ہے لیکن انتظامیہ ایک سازش کے تحت اس کو ہندومسلم بنانے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ پورے ملک میں اس سیاہ قانون کے خلاف لوگ مذہب سے اوپر اٹھ کراحتجاج کر رہے ہیں۔

Published: 16 Dec 2019, 6:11 PM IST

انہوں نے مزید کہا کہ جامعہ طلباء کے ساتھ ہوئے وحشیانہ سلوک کے خلاف اب پورے ملک کی یونیورسٹیوں اور دوسرے تعلیمی اداروں کے طلباء سراپا احتجاج بن کر ان سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں اور یہی ہمارے ملک کی جمہوریت کی روح ہے اور یہی یکجہتی اور اتحاد کا وہ جذبہ ہے جسے کچھ لوگ ختم کرنے کی پے درپے سازشیں کر رہے ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے اور احتجاج کے دوران کسی بھی طرح کے تشدد سے گریز کیا جانا چاہیے اور اس بات کا بھی لحاظ رکھاجانا چاہیے کہ اس سے عام لوگوں کو کسی طرح کی کوئی تکلیف نہ ہو، دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ کسی بھی تحریک کو طاقت کے زور سے کچلا نہیں جاسکتا۔

Published: 16 Dec 2019, 6:11 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 16 Dec 2019, 6:11 PM IST