
تصویر @ECISVEEP
بہار اسمبلی انتخاب میں اپوزیشن کو بدحال کر کے رکھ دینے والے حیرت انگیز نتائج کے بعد بہت سے دانشوروں کو عظیم ہندی شاعر سوریہ کانت ترپاٹھی ’نرالا‘ کی نظم ’رام کی شکتی پوجا‘ میں موجود کچھ بند بار بار یاد آ رہے ہیں۔ آئیں بھی کیوں نہیں، 1936 میں جب یہ نظم لکھی گئی، اس وقت موجودہ برسراقتدار طبقہ کی ہی طرح انگریز بھی ملک کو مستقل تقسیم کرنے میں مصروف تھے۔ مہاتما گاندھی کی قیادت میں چل رہی جنگ آزادی بار بار امید اور ناامیدی کے جھولوں میں جھولتی دکھائی دے رہی تھی۔ ایک طرف محمد علی جناح اور دوسری طرف ونایک دامودر ساورکر مستقل ایسے چیلنجز پیش کر رہے تھے جس سے مہاتما گاندھی دیگر چیزوں سے دھیان ہٹا کر اسے صرف انگریزوں سے نبرد آزما ہونے میں مرکوز نہ کر سکیں۔
Published: undefined
موجودہ وقت میں تقریباً ویسے ہی حالات ہیں، جس کی وجہ سے جمہوریت میں یقین رکھنے والے اور برسراقتدار طبقہ کے جبڑوں میں پھنس کر تکلیف برداشت کرنے والے امید لگائے بیٹھے تھے کہ علم اور انقلاب کی زمین بہار پامالی کے سلسلہ کو پلٹ دے گی۔ سینئر صحافی اور سماجی مفکر ارون کمار ترپاٹھی کو تو یہاں تک لگ رہا تھا کہ بہار کے بعد مغربی بنگال، تمل ناڈو اور کیرالہ سے ہوتے ہوئے اتر پردیش تک میں نفرت، ناانصافی، جھوٹ، مظالم اور آمریت کے پیروکاروں کو (جو ہماری جمہوریت اور اس کے اداروں کو ان کے ہی خاتمہ کے لیے استعمال کرنے پر آمادہ ہیں) اکھاڑ پھینکنے کا سلسلہ مرکز کی حکومت سے ان کی بے دخلی تک جا پہنچے گا۔
Published: undefined
لیکن یہ امید حقیقت کا جامہ نہیں پہن سکی اور بہار اسمبلی انتخاب کے نتائج آئے تو ہم نے ان پیروکاروں کو (عوام کو جن کے شکنجے سے بچانے کے لیے جمہوریت کا تصور کیا جاتا ہے) عوام کو شکست دے کر اپنی مونچھیں اینٹھنے میں مگن پایا۔ یہ بھی دیکھا کہ ان کے حریف مہابھارت کے ابھیمنیو کی رفتار کو حاصل کر گئے ہیں۔
Published: undefined
تب کئی مایوس لوگ جھنجھلاہٹ میں اس پر غور کیے بغیر کہ یہ لڑائی کتنی مشکل تھی، ان حریفوں کی کھوٹ اور خامیاں شمار کرنے پر اتر آئے اور بے دلی سے کہنے لگے کہ انھوں نے جنگ ٹھیک سے لڑی ہی نہیں۔ کاش وہ سمجھتے کہ اس جنگ میں جو برسراقتدار طبقہ اپنے مکمل نظام کے ساتھ ہر طرح کی غیر جمہوری اور غیر اخلاقی طریقہ اختیار کر ہر حال میں اپنے حریفوں کو نمٹانے میں لگا ہوا تھا، اس کے پاس بس اُن کو نمٹا دینے کا ہی ایک نکاتی پروگرام تھا، جبکہ حریفوں کے سامنے اس کے خیر خواہ الیکشن کمیشن، میڈیا، کند ذہن و فرقہ پرست اور آلودہ سماجی و مذہبی بہاؤ اور ناانصافی کرنے والی عدالتوں سمیت اس کے پورے ڈھانچے سے ایک ساتھ نمٹنے کا چیلنج تھا۔
Published: undefined
ایسے حالات میں، جب ملک کی آئینی جمہوریت کو دیکھتے ہی دیکھتے ’کنٹرول جمہوریت‘ (کنٹرولڈ ڈیموکریسی) میں بدل ڈالا گیا ہو، کیا یہ بات بھی بھول جانی چاہیے کہ انتخاب آزادانہ اور غیر جانبدارانہ نہ رہ جائیں تو وہ جمہوریت کی روح نہیں رہ جاتی اور انتخاب کرا دینے بھر سے کوئی ملک یا ریاست یا ان کی حکومتیں جمہوری نہیں ہوجاتیں۔
Published: undefined
سیاسی ماہرین کے مطابق ’قابو میں کی گئی جمہوریتوں‘ میں حکومتیں اوپر اوپر سے اپنے جمہوری ہونے کی نمائش بھلے کرتی رہتی ہے، اپنی حقیقی طاقت کچھ اشخاص یا گروپوں کے ہاتھوں میں مرکوز کر دیتی ہے۔ ایسی جمہوریتوں میں انتخاب پہلے سے طے کر لیے گئے نتائج کو جواز قرار دینے بھر کے لیے کرائے جاتے ہیں اور ان کے پیچھے حکومتیں یا ان کی پالیسیوں کو بدلنے کی ووٹرس کی طاقت کو بے ترکیب کر دینے کی بدنیتی ہوتی ہے۔
Published: undefined
ایسے میں ووٹرس اور پولنگ بوتھوں تک جانا رسمی ہی رہ جاتا ہے۔ انتخابات کی آزادی اور غیر جانبداری کی کوئی بڑی قدر نہیں رہ جاتی۔ چونکہ اس سب کے لیے آزاد میڈیا کو کو اقتدار حامی میڈیا میں بدلنا ضروری ہوتا ہے، اس لیے اس پر بھی طرح طرح کے شکنجے کس کر اسے سر اٹھانے لائق نہیں رہنے دیا جاتا۔
Published: undefined
مثال کے طور پر روس میں بھی الیکشن کمیشن ہے اور وہاں بھی پارلیمنٹ اور صدر کے مستقل انتخابات ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ کسی ڈھکوسلے سے زیادہ نہیں ہوتے، اس لیے ڈھائی دہائیوں سے ولادمیر پوتن اور ان کی پارٹی ہی اقتدار پر قابض ہے۔ اتنا ہی نہیں، ان کی مخالفت کرنے اور سچائی ظاہر کرنے والوں کی جگہ جیلوں میں ہے۔
Published: undefined
کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی اب ایسی ہی حالت پیدا نہیں کی جا رہی؟ کیا بہار اسمبلی انتخاب کو اس سے الگ کر کے دیکھا جا سکتا ہے؟ اس کا صاف جواب ہے ’نہیں‘۔ یقیناً اسی لیے بہار میں برسراقتدار اتحاد کی ’دھماکہ دار‘ فتح انھیں ہی زیادہ حیرت انگیز لگ رہی ہے، جنھیں روس میں پوتن، ترکی میں اردوآن اور بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی انتخابی جیت کا ’راز‘ نہیں معلوم۔ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں جمہوریت کے نام پر کرائے جانے والے انتخابات کی یہ حقیقت نہیں معلوم کہ ان میں الیکشن کمیشنوں، سیکورٹی فورسز اور نوکرشاہوں کی مدد سے انتخابی نتائج کا کتنی آسانی سے ’اغوا‘ کر لیا جاتا ہے۔
Published: undefined
اس اغوا کے لیے کچھ دنوں تک شور مچتا ہے، پھر سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔ ہاں، کوئی غیر معمولی احتجاج پر اتر آئے تو اس کو فرضی الزامات میں جیل بھیج کر سبق سکھا دیا جاتا ہے۔
Published: undefined
اتر پردیش کے سینئر سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر رام بہادر ورما تو صاف کہتے ہیں کہ بہار میں برسراقتدار اتحاد نے مشہور سیاسی مفکر میکیاویلی کے نظریات کے مطابق اخلاقیات کو پوری طرح پس پشت ڈال کر بے شرمی کے ساتھ ’سام، دام، دَنڈ، بھید‘ سبھی کا استعمال کر ڈالا۔ چونکہ مکمل اقتدار کا نظام اس کے ہاتھ میں تھا، اس لیے اس نے حریف اتحاد کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی ’کامیابی کے ساتھ‘ زمین دکھا دی۔
Published: undefined
ڈاکٹر ورما کہتے ہیں کہ ’’عین انتخاب کے وقت 1.40 کروڑ خاتون ووٹرس کی آنکھوں پر 10 ہزار کے نوٹوں کی پٹی باندھ دی جائے، جبکہ 80 فیصد آبادی کو مفت راشن دے کر ان کی آواز پہلے ہی بند کر دی گئی ہو تو غیر جانبدارانہ انتخاب کا جنازہ کیوں نہیں نکل جائے گا؟ خاص کر جب آئین کے مھافظ سپریم کورٹ اور آئین کے مطابق آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخاب کرانے کے لیے بنے الیکشن کمیشن کو اپنی ناک کے نیچے کھلے عام ہو رہی ووٹوں کی سرکاری خرید دکھائی نہیں دے گی۔
Published: undefined
اس پر ریاست میں انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل کی حالت ایسی تھی کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے وہاں دن رات ایک کر کے مذہبی و فرقہ وارانہ پولرائزیشن کرانے کی بھرپور کوشش کی۔ وزیر اعظم نریندر مودی سمیت اس اتحاد کے بیشتر لیڈران نے ریلیوں اور اجلاس کے دوران اپنی زبان پر قابو رکھنے کی قطعی ضرورت نہیں سمجھی، اور ایک سے بڑھ کر ایک نچلے درجہ کی باتیں کیں۔ لاکھوں ووٹرس کے تئیں بے حد غیر ہمدرد الیکشن کمیشن نے اس طرف سے تو آنکھیں موندیں رکھیں، لیکن دوسری ریاستوں سے ریل گاڑیوں میں بھر بھر کر لائے گئے ان کے ’منقولہ ووٹرس‘ کے تئیں بے حد ہمدردی کا مظاہرہ کیا۔
Published: undefined
نوکرشاہی کی سیاست کاری بھی اس انتخاب میں برسراقتدار اتحاد کے بہت کام آئی۔ اس نے اُس سے اپنے کیڈر کی طرح کام لیا۔ انتخاب کے وقت ہی دوردرشن نے بہار کے لالو-رابڑی دور کے نام نہاد جنگل راج پر بنی پرکاش جھا کے ذریعہ ہدایت کاری والی 2 فلمیں ’گنگا جل‘ اور ’اَپہرن‘ دکھائیں تاکہ ان کا پیغام اس نئی نسل تک بھی پہنچ جائے، جس نے اس ’جنگل راج‘ کو نہیں دیکھا۔
Published: undefined
ایسے میں کیا حیرانی کہ نتیجہ وہی ہوا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا؟ لیکن اب آگے؟ کسی نے کہا ہے کہ ہارنے کے بعد، پٹخنی کھانے کے بعد گرد جھاڑ کر کھڑے ہو جانا چاہیے اور کہنا چاہیے... ایک مقابلہ اور! اپوزیشن کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، کیونکہ آگے مزید لڑائی ہے۔ لیکن وہ لڑائی ہی نہیں، اس کا موقع بھی ہے تاکہ سخت جان کوشش کے ذریعہ وہ اس شکست کو اپنی آخری شکست ثابت کر سکتا ہے۔ اگر نیویارک کے میئر کے انتخاب میں ظہران ممدانی طاقتور بالادستی والوں کے مفادات کو کھلا چیلنج دے کر جیت حاصل کر سکتے ہیں، تو ہمارے ملک میں اپوزیشن ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟ البتہ اسے کر سکنے کی ایک شرط ہے... اس کا عزم مضبوط ہو اور اعتماد آہنی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined