سیاسی

اب ملک میں انصاف کا ڈنکا نہیں بجے گا... ظفر آغا

پارلیمنٹ بے معنی ہو چکی ہے، افسر شاہی پر حکومت نے شکنجہ کس لیا ہے اور اب تو عدلیہ بھی سرکار کی جیب میں ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ سپریم کورٹ پر زعفرانی غلبہ مسلط ہو چکا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

جس بات کا خدشہ تھا آخر وہی ہوا! مودی حکومت کو آزاد عدلیہ نہیں، پٹھو جج چاہیے ہیں۔ ایسے جج جن کو مکہ مسجد میں ہونے والے بم دھماکوں کا ’ماسٹر مائنڈ‘ جیسا دہشت گرد صاف ستھرا نظر آئے۔ اس حکومت کو ایسا چیف جسٹس پسند ہے جو جج لویا کی مشتبہ موت کی انکوائری سے انکار کر دے۔ ایسا منصف جو مایا کوڈنانی جیسی سفاک کو بھی باعزت بری کر دے۔ لب و لباب یہ کہ مودی حکومت میں اب انصاف نہیں نظریاتی انصاف ہوگا۔ وہ انصاف جو سنگھ کے مفاد میں ہو بس اب وہی انصاف ہوگا۔ اس لیے آپ ابھی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایودھیا مقدمے میں کیسا انصاف ہونے والا ہے۔

لیکن پچھلے ہفتے سپریم کورٹ جن ہنگامی حالات سے گزرا اس کے بعد خود بی جے پی حامی اور واجپئی سرکار کے اٹارنی جنرل سولی سوراب جی چیخ اٹھے کہ ’’ہم کو سرکاری جج نہیں چاہیے‘‘۔ لیکن بھلا اب سوراب جی جیسوں کی سنتا کون ہے۔ اب اس حکومت کے تحت عدلیہ میں وہی فیصلہ ہوگا جو مودی حکومت کو منظور ہوگا۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے اس کا ذکر بعد میں، سپریم کورٹ میں ہوا کیا اس کی یاد دہانی پہلے۔

سپریم کورٹ میں ہنگامہ چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف مواخذہ عرضی سے شروع ہوا۔ دیپک مشرا ہندوستان کے وہ پہلے چیف جسٹس ہیں جن کے خلاف ایسی عرضی دی گئی۔ نائب صدر، جن کے پاس یہ عرضی ضوابط کے مطابق داخل کی گئی، انھوں نے اس کو رد کر دیا گو اپوزیشن چیختی رہ گئی کہ نائب صدر کو ایسا کوئی اختیار نہیں ہے۔ لیکن آخر یہ نوبت آئی کیوں کہ ملک کے پچاس سے زیادہ ممبران راجیہ سبھا چیف جسٹس میں اپنا اعتماد کھو بیٹھے۔ ملک کے نامور وکیل پرشانت بھوشن کے مطابق جسٹس دیپک مشرا کے خلاف بدعنوانی کے معاملات ہیں جن کی چھان بین سی بی آئی کر رہی ہے۔ پرشانت بھوشن کا یہ بھی الزام ہے کہ اس طرح چیف جسٹس حکومت کے دباؤ میں ہیں اس لیے ان سے انصاف کی امید کم ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی دلیل کے مطابق جسٹس دیپک مشرا کو مواخذہ کے ذریعہ ہٹانا ہی بہتر ہوگا۔ لیکن نائب صدر نے اس عرضی کو جھٹ پٹ رد کر چیف جسٹس کے خلاف اٹھے ہنگامے کو ختم کر دیا اور ’عزت مآب‘ دیپک مشرا کی آبرو بچا لی۔ لیکن اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ اس طرح سپریم کورٹ کی آبرو جاتی رہی۔

خیر، جسٹس مشرا کا معاملہ ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا تھا کہ سپریم کورٹ میں جسٹس جوزف کی تقرری کا معاملہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ہوا یوں کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کا معاملہ سپریم کورٹ کالجیم کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ کالجیم کی ایما پر نئے ججوں کی تقرری کے لیے چیف جسٹس حکومت کو نام بھیجتے ہیں۔ اگر وہ نام حکومت کو منظور نہیں تو وہ ان کو کالجیم کو نظر ثانی کے لیے واپس بھیج سکتی ہے۔ لیکن اگر کالجیم دوبارہ وہی نام حکومت کو لوٹا دے تو پھر حکومت کو ان کو منظوری دینا لازمی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی قاعدہ ہے کہ اگر کالجیم دو نام بھیجے گی تو حکومت یا تو دونوں نام کو نظرثانی کے لیے واپس بھیجے یا دونوں نام کو منظوری دے۔ حکومت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ دو میں سے ایک کو پسند کرے اور ایک کو مسترد کر دے۔ چنانچہ سپریم کورٹ کالجیم نے دو نام (اِندو ملہوترا اور جسٹس جوزف) سپریم کورٹ میں تقرری کے واسطے حکومت کو بھیجے۔ مودی حکومت نے اندو ملہوترا کو منظوری دے دی اور جسٹس جوزف کا نام واپس بھیج دیا۔ جسٹس جوزف وہ جج ہیں جنھوں نے بطور چیف جسٹس اتراکھنڈ میں مودی حکومت کے ذریعہ لگائے گئے صدر راج کو منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ جسٹس جوزف کی یہ بات بی جے پی کو گراں گزری اسی لیے ان کا نام مودی حکومت نے رَد کر دیا۔

Published: 28 Apr 2018, 9:26 AM IST

بس اسی بات پر ہنگامہ بپا ہو گیا۔ تقریباً 100 وکلاء کے ایک گروہ نے چیف جسٹس دیپک مشرا کی عدالت میں اس معاملے کی منادی کے لیے دروازہ کھٹکھٹایا لیکن انھوں نے نہ صرف عرضی رَد کر دی بلکہ حکومت کی اس معاملے میں بالادستی بھی قبول کر لی۔ اس طرح اب سپریم کورٹ پر بھی باقاعدہ زعفرانی غلبہ مسلط ہو گیا۔ راقم نے پچھلے ہفتے عرض کیا تھا کہ پارلیمنٹ بے معنی ہو چکی ہے۔ افسر شاہی پر حکومت کا شکنجہ ہے۔ اب عدلیہ بھی سرکار کی جیب میں ہے۔ ادھر میڈیا تو حکومت کے گن گان کے علاوہ کچھ جانتی ہی نہیں ہے۔ بس یہی سنگھ کی خواہش تھی۔ سنگھ کو آئین کی بالادستی نہیں زعفرانی نظریہ کی بالادستی چاہیے ہے۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ملک کے تمام ادارے آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔ اسی لیے پارلیمنٹ سے لے کر عدلیہ تک سنگھ مودی حکومت کے ذریعہ تمام اداروں کی ساکھ منصوبہ بند طریقے سے ختم کرتا جا رہا ہے۔ جسٹس جوزف کی تقرری میں اڑنگا لگانا اسی کاوش کی ایک اہم کڑی ہے۔

افسوس کہ یہ حرکتیں پاکستان میں ہوتی تھیں اور ہم ہنستے تھے۔ یہ کس کو پتہ تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ سنگھ اس عظیم الشان ملک کو بھی دوسرا پاکستان بنا دے گا! جی ہاں، سیاست پر تو پاکستان کی طرح مذہب کا رنگ چڑھ ہی چکا تھا، اب عدلیہ پر بھی پاکستان کی طرح حکومت کا سایہ صاف نظر آنے لگا ہے۔ بھلا کون اس کو صحیح جمہوری نظام قرار دے سکتا ہے!

Published: 28 Apr 2018, 9:26 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 28 Apr 2018, 9:26 AM IST