سیاسی

این سی پی اور کانگریس نے بی جے پی کی نیّا ڈبو دی... سہیل انجم

بی جے پی نے یہ بیان دے کر کہ وہاں اس کی حکومت بنے گی، خرید فروخت کے امکانات کھول دیئے ہیں جس کی جانب شیو سینا نے اشارہ بھی کیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

وہ پارٹی جس نے گوا میں اکثریت سے دور رہنے کے باوجود خرید و فروخت کی مدد سے اپنی حکومت بنا لی۔ وہ پارٹی جس نے منی پور میں پیسوں کی طاقت پر کانگریس کی حکومت نہیں بننے دی۔ وہ پارٹی جس نے کرناٹک میں کانگریس اور جے ڈی ایس کے کچھ ممبران اسمبلی کو خرید کر وہاں کی مخلوط حکومت گرا کر اپنی حکومت بنا لی۔ وہ پارٹی جس نے ہریانہ میں اپنے سیاسی حریف دشینت چوٹالہ سے ہاتھ ملا کر دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ وہ پارٹی مہاراشٹر میں بالکل بے بس نظر آئی۔ نہ تو خرید و فروخت کا حربہ کام آیا نہ ڈرانے دھمکانے کا۔

Published: 18 Nov 2019, 5:30 PM IST

ابھی تو وہاں صدر راج نافذ ہے لیکن اس بات کے آثار و قرائن بہت قوی ہیں کہ وہاں جلد ہی شیو سینا، این سی پی اور کانگریس کی مخلوط حکومت قائم ہو جائے گی۔ حالانکہ بی جے پی نے یہ بیان دے کر کہ وہاں اس کی حکومت بنے گی، خرید فروخت کے امکانات کھول دیئے ہیں جس کی جانب شیو سینا نے اشارہ بھی کیا ہے۔ لیکن ممکن ہے کہ یہ بیان مذکورہ تینوں پارٹیوں کے بعض لالچی ممبران کو توڑنے کا ایک حربہ ہو۔ ان پارٹیوں کو بہت ہی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ خرید فروخت اور جوڑ توڑ میں بی جے پی کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے۔

Published: 18 Nov 2019, 5:30 PM IST

بی جے پی مہاراشٹر میں کیوں بے بس نظر آئی اور چاہنے کے باوجود اپنی حکومت نہیں بنا سکی اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ شیو سینا نے ایسی شرطیں رکھ دیں جو بی ے پی کے لیے قابل قبول نہیں تھیں۔ شیو سینا کا دعویٰ ہے کہ ایسا الیکشن میں جانے سے قبل دونوں جماعتوں میں طے ہو گیا تھا۔ لیکن بی جے پی اس سے انکار کرتی رہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے ایسے کسی فارمولے سے اتفاق نہیں کیا تھا کہ دونوں کا ڈھائی ڈھائی سال وزیر اعلیٰ ہوگا۔

Published: 18 Nov 2019, 5:30 PM IST

شیو سینا کو اتنی طاقت کہاں سے مل گئی کہ وہ بی جے پی کے سامنے سخت شرطیں رکھنے پر آمادہ ہو گئی اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ بی جے پی کو 105 اور شیو سینا کو 56 نشستیں ملی تھیں اس کے باوجود وہ اکڑ گئی۔ در اصل این سی پی تیسری پوزیشن میں آگئی۔ اس کی بڑی وجہ پرانے مراٹھا سیاست داں شرد پوار کی پرزور انتخابی مہم رہی ہے۔ انھوں نے این سی پی کو ایک نئی زندگی دے دی۔ اور تیسری طرف کانگریس کی بھی اپنی نشستوں میں اضافہ ہوا۔

Published: 18 Nov 2019, 5:30 PM IST

شیو سینا کو شروع سے ہی یہ امید تھی کہ اگر وہ بی جے پی سے ناطہ توڑ لے تو شرد پوار اس کی حمایت کر سکتے ہیں۔ اور جب شرد پوار حمایت کریں گے تو کانگریس بھی کرے گی۔ انتخابات کے دوران حالانکہ ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا تھا کہ یہ تینوں پارٹیاں ایک ساتھ حکومت بنا سکتی ہیں۔ لیکن نتائج آنے کے بعد این سی پی کے بعض لیڈروں کی جانب سے ایسے اشارے ضرور دیئے گئے تھے۔ ادھر شیو سینا کے صدر ادھو ٹھاکرے کو یہ یقین تھا کہ سیاست کرکٹ میچ کی مانند ہے اس میں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

Published: 18 Nov 2019, 5:30 PM IST

دوسری بات یہ کہ وہ بھی اس حقیقت سے واقف تھے کہ سیاست میں کوئی نہ مستقل دوست ہو تا ہے نہ مستقل دشمن۔ اس لیے ان کو یقین تھا کہ اگر ایسا کچھ معاملہ سامنے آیا تو سیاست کا کھیل الٹ پلٹ سکتا ہے۔ ایک اور بات تھی جس نے شیو سینا کو بی جے پی کے سامنے سخت موقف اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ بی جے پی نے ان پانچ برسوں میں شیو سینا کو بہت ذلیل کیا۔ مرکزی کابینہ میں اس کے صرف ایک ہی ممبر کو رکھا۔ ریاست میں شیو سینا کی باتیں مانی نہیں جا رہی تھیں۔ وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس من مانی کرتے رہے ہیں۔

Published: 18 Nov 2019, 5:30 PM IST

شیو سینا کو یہ بھی خطرہ تھا کہ اگر اس نے خود کو مضبوط نہیں دکھایا تو اس کا وجود ختم ہو جائے گا۔ جس طرح بی جے پی شیو سینا کے کندھے پر قدم رکھ کر ایوان اقتدار تک پہنچی ہے اس کے پیش نظر خطرہ اس بات کا تھا کہ وہ شیو سینا کو ختم کر سکتی ہے۔ اس لیے سیو سینا کے لیے اپنا وجود بچائے رکھنے کی جنگ کرنی تھی۔ سوال یہ کیا جا سکتا ہے کہ ایسی صورت میں اس نے بی جے پی سے انتخابی مفاہمت کیوں کی۔ اس نے تنہا الیکشن کیوں نہیں لڑا۔

Published: 18 Nov 2019, 5:30 PM IST

اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں جبکہ شیو سینا اور بی جے پی الگ الگ لڑتے شیو سینا کو زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اس نے اس کے ساتھ لڑنے کو ترجیح دی۔ یہ بھی دیکھا گیا تھا کہ پورے پانچ برسوں میں شیو سینا نے بی جے پی کے خلاف خوب بیان بازیاں کیں لیکن بی جے پی مصلحتاً خاموش رہتی رہی۔ اس نے کبھی کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ جانتی تھی کہ اگر وہ شیو سینا کے مد مقابل آئے گی تو مہاراشٹر میں اس کے لیے مشکل پیش آسکتی ہے۔

Published: 18 Nov 2019, 5:30 PM IST

شیو سینا سے الگ ہونے کی صورت میں ریاستی حکومت ختم ہو جاتی۔ لہٰذا اس نے ذلت برداشت کرنے کو ترجیح دی اقتدار گنوانے کو نہیں۔ بی جے پی یوں بھی اقتدار کی خاطر کچھ بھی کر سکتی ہے اور کچھ بھی سہہ سکتی ہے۔

Published: 18 Nov 2019, 5:30 PM IST

ادھر جب موقع ملا تو این سی پی اور کانگریس نے بھی بی جے پی سے حساب کتاب برابر کرنے کی ٹھان لی۔ در اصل اب تک مختلف ریاستوں میں بی جے پی کی کامیابی کی واحد وجہ یہ رہی ہے کہ اپوزیشن نے خود کو سرینڈر کر دیا ہے۔ اگر وہ ہمت جٹا کر میدان میں آجائے تو بی جے پی کے پسینے چھوٹ سکتے ہیں۔ ایسا ہم نے مہاراشٹر میں دیکھ لیا۔ بی جے پی اقتدار کی خاطر ہر اصول کو توڑ سکتی ہے اور ہر نظریے سے سمجھوتہ کر سکتی ہے۔ اس کی متعدد مثالیں سامنے موجود ہیں۔

Published: 18 Nov 2019, 5:30 PM IST

اس لیے اگر اپوزیشن اس کے مقابلے میں محض دو قدم ہی اس کے راستے پر چل پڑے تو اس کو اپنی اوقات سمجھ میں آجائے گی۔ ہمیشہ ہندو مسلم اور پاکستان اور گائے سے سیاسی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ مہاراشٹر کے عوام اور انتخابی نتائج نے یہ بتا دیا کہ اگر اپوزیشن تھوڑی سی ہمت دکھائے تو عوام اس کو اقتدار کے ایوان تک پہنچانے کے لیے آگے آجائیں گے۔ لیکن جب یہ تاثر عام ہو جائے کہ بی جے پی کا کسی سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے تو پھر وہی جیتے گی۔

Published: 18 Nov 2019, 5:30 PM IST

بہر حال مہاراشٹر میں این سی پی اور کانگریس نے شیو سینا کے ساتھ مل کر بی جے پی کو اس کی اوقات بتا دی ہے۔ اب اگر وہاں بی جے پی جوڑ توڑ کرکے اپنی حکومت بنا بھی لیتی ہے جس کا دور دور تک امکان نہیں ہے تب بھی اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکے گا کہ اپوزیشن اٹھ کر کھڑی ہو جائے تو انتخابی دنگل میں بی جے پی کو چت کر سکتی ہے اور جس طرح مہاراشٹر میں اس کی نیا ڈوب گئی ہے دوسری ریاستوں میں بھی ڈوب سکتی ہے۔

Published: 18 Nov 2019, 5:30 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 18 Nov 2019, 5:30 PM IST