سیاسی

شاہین باغ مظاہرہ کو مسلمانوں نے فیل کیا یا پھر کسی اور نے... سید خرم رضا

ملک کی راجدھانی دہلی میں تین دن سے سڑکوں پر جو تشدد برپا ہے اس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب شاہین باغ کے پر امن مظاہرہ پر سوال کھڑے ہونے شروع ہو گئے ہیں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

گزشتہ ڈھائی ماہ سے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں دہلی کے شاہین باغ علاقہ میں ہر عمر کی خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اور ان خواتین نے اپنے گھر کے آرام کو قربان کر دیا، سخت سردیوں اور بارشوں کو برداشت کیا، پانچ سو روپے و بریانی کے بیہودہ الزامات کو سہا، گولیاں چلانے اور عدالت کے تقررشدہ مذاکرات کاروں کے سامنے اپنا دکھڑا رونا رویا لیکن ان تمام تکالیف کے باوجود اپنے احتجاج میں آڑے نہیں آنے دیا اور شائد یہی وجہ تھی کہ شاہین باغ مظاہرہ ملک کیا پوری دنیا میں احتجاج کا نیا ماڈل بن کر ابھرا۔ اس کی پوری دنیا میں پذیرائی ہوئی اور جن قووتوں کے خلاف یہ احتجاج ہو رہا تھا ان قووتوں کے لئے یہ احتجاج ایک درد سر بن گیا لیکن انا اور اپنے ایجنڈے کی وجہ سے ان قووتوں نے کبھی ان مظاہرین سے بات چیت کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ ان کے احتجاج کے خلاف ایک ضد برقرار رکھی۔

Published: undefined

شاہین باغ مظاہرہ کو جو مقبولیت حاصل ہوئی اس سے جہاں سیکولر قووتوں کو تقویت ملی وہیں فرقہ وارانہ ذہنیت کی اس مظاہرہ نے نیند اڑا دی۔ نیند اڑنا لازمی تھا کیونکہ پہلی مرتبہ ملک کی آدھی آبادی یعنی خواتین اور وہ بھی وہ خواتین جن کے شوہروں نے کبھی انہیں گھر کی چوکھٹ لانگھنے کی اجازت نہیں دی۔ مظاہرہ میں آنے والی خواتین کا تعلق یا تو اقلیتوں سے یا دلت اور آزاد خیال تعلیم یافتہ خواتین سے ہے۔ ان خواتین نے جس دانشمندی سے اپنی بات پوری دنیا کے سامنے رکھی اس نے مخالفین کو اتنا بوکھلا دیا کہ انہوں نے پہلے تو یہ الزام لگایا کہ مظاہرہ میں آنے والی خواتین پانچ سو روپے لے کر آرہی ہیں اور پھر الزام لگایا کہ وہاں پر مفت بریانی مل رہی ہے اس لئے وہاں بڑی تعداد میں مظاہرین آرہے ہیں۔ اس سب کے باوجود شاہین باغ میں بیٹھی خواتین مظاہرین نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا اور اپنا پر امن احتجاج جاری رکھا اور یہ احتجاج اس صورت میں بھی پر امن رہا جب وہاں شدت پسندوں نے ان کو ڈرانے کے لئے گولیاں بھی چلائیں۔

Published: undefined

شاہین باغ میں بیٹھی خواتین نے جب اپنے مخالفین کو کوئی موقع نہیں دیا تو اقلیتوں نے ہی ان کو یہ موقع فراہم کر دیا۔ شاہین باغ کے مخالفین اس موقع کے انتظار میں تھے انہوں نے فوراً اس موقع کو دھر دبوچا اور صرف شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو بدنام نہیں کیا بلکہ پوری دہلی کو خوف کے سائے میں دھکیل دیا۔

Published: undefined

اقلیتوں نے ہی مخالفین کو موقع دیا ہے یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ دہلی اور ہندوستان کے کئی علاقوں میں شاہین باغ کی طرز پر مظاہرہ چل رہے تھے جو پر امن بھی تھے اور پر اثر بھی تھے لیکن 22 فروری کی رات کو اچانک نہ جانے کون مشرقی دہلی کے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے نیچے چلنے والی ایک سائڈ کی سڑک پر لے کر بیٹھ گیا یعنی انہوں نے ایک سائڈ کی سڑک آمد و رفت کے لئے بند کر دی۔ یہ سب کچھ موج پور اور جعفرآباد کے مٹھی بھر لوگوں نے کیا۔ شاہین باغ کے احتجاج پر پہلے یہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ وہاں پر سڑک بند کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں کو نقل و حمل میں دشواری ہو رہی ہے۔ اس کے بعد صبح ہونے پر چاند باغ کی بھی ایک سڑک کا راستہ بند کر کے مظاہرہ شروع کر دیا گیا۔ ان دونوں راستوں کے بند ہونے کے بعد شاہین باغ مظاہرہ کے مخالفین کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہو رہے مظاہرہ کے خلاف آواز بلند کرنے کا موقع دے دیا گیا۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ شاہین باغ مظاہرہ میں شامل لوگ تعلیم یافتہ تھے اور شمال مشرقی دہلی کے ان علاقوں کی آبادی تعلیم سے بہت دور ہے۔

Published: undefined

جیسے ہی خبر پھیلی کہ شمال مشرقی دہلی کے دو اور علاقوں میں سڑکیں بند کر دی گئی ہیں ویسے ہی بی جے پی کے رہنما کپل مشرا میدان میں اتر گئے اور پولیس اور مظاہرین کو الٹیمیٹم دینا شروع کر دیا۔ کپل مشرا کے اس الٹیمیٹم کے بعد ماحول اس قدر گرمایا کہ پھر دیکھتے ہی دیکھتے شمال مشرقی کے کئی علاقوں میں تشدد بھڑک اٹھا اور پھر دیکھتے ہی پورے جھگڑے نے فرقہ وارانہ رنگ لے لیا اور نہ جانے کب ایک ساتھ رہنے والے ہندوستانی اچانک ہندو اور مسلمان بن گئے۔ ابھی تک اس تشدد میں ایک پولیس اہلکار سمیت سات لوگوں کی قیمتیں جانیں جا چکی ہیں، متعدد گاڑیاں اور دکانیں نذر آتش کر دی گئی ہیں۔

Published: undefined

دہلی کے اس تشدد کے بعد شاہین باغ کا مظاہرہ اپنی چمک کھو چکا ہے اور آئین کی لڑائی فرقہ وارانہ لڑائی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اس سب کے لئے آخر ذمہ دار کون ہے؟ لاکھ ہم یہ کہیں کہ اس تشدد کے لئے کپل مشرا اور مرکز کی بی جے پی حکومت ذمہ دار ہیں لیکن ان کو موقع کس نے دیا؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کا موقع خود اقلیتوں نے دیا اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس مظاہرہ کی کمان کسی کے ہاتھ میں نہیں تھی اور کوئی بھی کہیں بھی ایسے مظاہرہ شروع کرنے لگا تھا۔ چھوٹے چھوٹے نیتا بڑے بننے کی چاہ اور کوشش میں اس طرح کے مظاہر شروع کرنے لگے تھے جبکہ شاہین باغ کے مظاہرہ کو سیکولر بنائے رکھنے اور لڑائی کو آئین تک محدود رکھنے کے لئے کافی سنجیدہ اور تعلیم یافتہ لوگ سامنے آئے تھے۔ خود اقلیتوں نے کپل مشرا اینڈ پارٹی کو یہ موقع دیا ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ شاہین باغ مظاہرہ اور دہلی کے امن دونوں پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined