سیاسی

ہندوستان کو محسوس ہو رہی پلاننگ کمیشن کی کمی... بھرت ڈوگرا

یقیناً پلاننگ کمیشن میں کئی خامیاں تھیں اور اس میں اصلاح کی ضرورت تھی، لیکن اصلاح کی جگہ اسے ختم ہی کر دینا بہت نامناسب فیصلہ تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

حال کے وقت میں جب کئی بار نامناسب معاشی پالیسیوں کی چوٹ لوگوں نے محسوس کی یا سرکاری پالیسیوں میں مناسب تیاری کی کمی پائی تو اس وقت پلاننگ کمیشن کی غیر موجودگی کا بہت تلخ احساس ہوتا ہے۔ ان 7-6 سالوں میں ہی یہ واضح ہو گیا ہے کہ پلاننگ کمیشن کو ختم کرنے کا این ڈی اے حکومت کا فیصلہ ملک کے لیے بہت مہنگا ثابت ہوا ہے۔ مرکز اور ریاستوں کے معاشی رشتوں کو بہتر بنانے اور منظم کرنے میں بھی آج پلاننگ کمیشن کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔

Published: undefined

این ڈی اے حکومت کی تشکیل کے بعد اس نئی حکومت کے سب سے پہلے کاموں میں یہ ترجیح تھی کہ پلاننگ کمیشن کو ختم کر دیا جائے۔ جس پلاننگ کمیشن نے 12 پنج سالہ منصوبوں کے دور میں آزاد ہندوستان کے ترقیاتی سفر میں اہم کردار نبھایا تھا، اسے ایک جھٹکے میں اور بہت اچانک ختم کر دیا گیا۔ اتنے اہم فیصلے کے لیے کوئی خاص صلاح و مشورہ نہیں کیا گیا، جیسے کہ پہلے سے پلاننگ کمیشن کو تحلیل کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہو۔ ہاں، اس کی جگہ پر نیتی آیوگ ضرور قائم کیا گیا لیکن یہ ایک الگ طرح کا ادارہ ہے اور جو خلا پلاننگ کمیشن کو تحلیل کرنے سے پیدا ہوا ہے اس کا ازالہ نیتی آیوگ سے نہیں ہو سکتا۔

Published: undefined

پلاننگ کمیشن کو ایسے وقت پر ختم کیا گیا ہے جب ماحولیاتی تبدیلی کے دور میں ترقیاتی منصوبہ بندی کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس دور میں غیر معمولی موسم، بڑھتے آفات، زراعت اور صحت جیسے اہم شعبوں میں نئے مسائل اور چیلنجز کے سبب زیادہ احتیاط سے کی گئی منصوبہ بندی کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔ ایک طرف سبھی لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو ٹکاؤ طور پر پورا کرنے کا بہت اہم چیلنج پہلے سے سامنے تھا، اب اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہو گیا ہے کہ یہ ہدف ایسی راہ پر چلتے ہوئے حاصل کیا جائے جس میں ساتھ ساتھ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بھی کم ہو سکے۔

Published: undefined

واضح ہے کہ ترقیاتی منصوبہ کی ضرورت پہلے کے مقابلے کم نہیں ہوئی، بلکہ مزید بڑھ گئی ہے۔ اس لیے اس دور میں پلاننگ کمیشن کو ختم کرنا بہت ہی نامناسب اور نقصاندہ فیصلہ تھا۔ یقیناً ہی پلاننگ کمیشن میں کئی خامیاں تھیں اور اس میں اصلاح کی ضرورت تھی۔ لیکن پلاننگ کمیشن کو بہتر بنانے اور زیادہ مضبوط کرنے کی جگہ اسے ختم ہی کر دینا بہت نامناسب فیصلہ تھا اور جس سمت میں جانے کی ضرورت ہے، اس سے برعکس سمت میں جانے جیسا فیصلہ تھا۔

Published: undefined

ہندوستان میں منصوبہ بند ترقی کی بنیاد آزادی کے پہلے ہی رکھ دی گئی تھی اور اس سمت میں شروعاتی کوششوں سے سبھاش چندر بوس اور جواہر لال نہرو جیسے سرفہرست لیڈر جڑے تھے۔ سال 66-1950 کے دوران آزاد ہندوستان نے پہلے تین سالہ پنج سالہ منصوبے مکمل کیے۔ سال 69-1966 کے معاشی بحران کے بعد 70-1969 میں چوتھے پنج سالہ منصوبہ کی شروعات ہوئی، لیکن اس میں بہت کٹوتیاں کرنی پڑیَ پانچویں منصوبہ کو سال 1977 میں نومنتخب جنتا پارٹی حکومت نے ’رالنگ منصوبہ‘ میں بدل دیا۔ چھوٹا منصوبہ 1980 میں شروع ہوا اور 1990 تک ساتواں منصوبہ پورا ہو گیا۔

Published: undefined

پھر 92-1990 کی سیاسی غیر یقینی کا عمل کچھ دور ہو گیا۔ لیکن سال 1992 کے بعد آٹھواں منصوبہ شروع ہوا تو آگے نویں، دسویں اور گیارہویں منصوبہ کا کام لگاتار چلتا رہا۔ سال 2012 میں جب بارہواں پنج سالہ منصوبہ بہت تیاریوں اور اسٹڈی کے ساتھ شروع ہو گیا تو کسی نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنی محنت سے تیار کیے گئے منصوبہ کو جلد ہی درمیان میں چھوڑ دیا جائے گا اور ساتھ میں منصوبے تیار کرنے اور سرگرم کرنے کا پورا عمل ہی ختم ہو جائے گا۔

Published: undefined

موجودہ مرکزی حکومت نے اتنا بڑا فیصلہ لینے سے قبل ریاستی حکومتوں سے ضروری مشورہ نہیں کیا کہ وہاں ریاستی سطح کے پلاننگ کمیشن یا بورڈوں کی کیا حالت ہوگی اور وہ منصوبہ کو جاری رکھنا چاہتی ہیں کہ نہیں۔ اچانک ایسا فیصلہ لیا گیا جس سے بہت غیر یقینی اور عدم استحکام کی حالت پیدا ہوئی۔ اگر ریاستی حکومتوں سے مناسب مشورہ کیا جاتا اور ان کی رائے کو ضرروی اہمیت دی جاتی تو شاید پلاننگ کمیشن کو اس طرح ختم کرنے کی حالت پیدا ہی نہیں ہوتی۔

Published: undefined

ماحولیاتی بحران کے مشکل ہونے کے ساتھ وسیع منصوبے کی ضرورت یقینی طور پر بہت بڑھ گئی ہے۔ پہلے جو ماڈل تھا اس میں مختلف وسائل اور لوگوں کی ضرورتوں کا میل ہمیں قائم کرنا تھا۔ اب جو حالت ہے وہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ جو کاربن اسپیس ہے یا ماحولیاتی تحفظ کی بنیاد پر ہمیں جتنی جگہ حاصل ہے اس جگہ میں ہی سب لوگوں کی ضرورتوں کو کیسے پورا کریں۔

Published: undefined

اگر اس بنیاد پر منصوبہ بنے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ نابرابری کو تیزی سے کم کرتے ہوئے برابری پر مبنی ترقی کی ضرورت اب پہلے کے مقابلے اور تیزی سے بڑھ گئی ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ کچھ طاقتور مفادات اس حالت کو اور ایسے نتائج کو لوگوں سے چھپانا چاہتے ہیں اور اس وجہ سے انھوں نے پنج سالہ منصوبوں اور انھیں تیار کرنے والے پلاننگ کمیشن کو ہی ختم کر دیا ہے۔ لیکن اپوزیشن پارٹیوں اور عوامی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ منصوبہ بند ترقی اور پلاننگ کمیشن کی بہتر شکل میں از سر نو تشکیل کے مقاصد اور ایجنڈے کو زندہ رکھیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined