سیاسی

ادے پور قتل : مسلمانوں کو پیغمبر اسلامؐ کی زندگی اور تعلیمات سے سبق لینے کی ضرورت

ادے پور میں درزی کے دو جنونی قاتلوں کو مثالی سزا ملنی چاہئے کیونکہ انہوں نے قتل ہی نہیں بلکہ وزیر اعظم کو دھمکی بھی دی ۔ یہ وحشیانہ قتل ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بھی ایک سبق ہے۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس 

2873

أ۹

کادے پور میں ایک درزی کے وحشیانہ قتل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب مبینہ طور پر پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا بدلہ لینے کے لیے کیا گیا تھا، جنہیں مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قاتلوں نے مقتول پر نہ تو رحم کیا اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامات کا کوئی احترام کیا۔ مذہب کی آڑ میں جرم کرنے والے اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے بالکل ناواقف تھے۔

Published: 30 Jun 2022, 7:11 AM IST

ہر مسلمان مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی دنوں کے کم از کم ایک واقعہ سے واقف ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو اسلام کا بانی قرار دیا تو انہیں بھی زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ مکہ کی ایک خاتون ان سے اتنی دشمنی رکھتی تھیں کہ جب بھی وہ اس کی گلی سے گزرتے تو وہ ان پر کوڑا پھینکتی۔ یہ تقریباً روز کا معمول تھا۔ ایسے ہی ایک دن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم گلی سے گزرے تو حیران رہ گئے کیونکہ اس دن ان پر کوڑا نہیں پھینکا گیا۔ محمد صاحبؐ نے خاتون کے گھر جا کر اس کی خیریت دریافت کی۔ پتا چلا کہ وہ خاتون بیمار ہو گئی ہیں۔ وہ بیمار خاتون کے پاس گئے اور تکلیف میں اس کی مدد اور شفا کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ رحم کے اس عمل سے اس خاتون کا دل پگھل گیا اور اس نے اسلام قبول کر لیا۔

وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو رحیم تھے۔ ان کے حقیقی پیروکار ادے پور کے قاتلوں کی طرح نہیں ہو سکتے۔

Published: 30 Jun 2022, 7:11 AM IST

موجودہ سیاسی ماحول کا سامنا کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور تعلیمات پر عمل کریں۔ ابتدائی اسلام کے ان مشکل وقتوں میں، انہوں نے اپنے پیروکاروں کو صبر کی تلقین کی اور انہیں مشورہ دیا کہ ان پر جو بھی مصیبت آئے اسے صبر سے برداشت کریں۔ موجودہ سیاسی اور سماجی حالات میں ہندوستانی مسلمانوں کے پاس واحد آپشن یہ ہے کہ وہ ہر مصیبت کو صبر سے برداشت کریں۔ کوئی بھی جذباتی عمل یقیناً ایک ردعمل کا باعث بنے گا جس سے صرف اور صرف فرقہ وارانہ طاقتوں کو تقویت ملے گی۔

Published: 30 Jun 2022, 7:11 AM IST

اگر آپ ماضی میں فرقہ وارانہ بحرانوں کے دوران ہندوستانی مسلم قیادت کے جذباتی ردعمل پر نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے 1980 کی دہائی کے آخر تک بی جے پی کو عروج تک پہنچنے میں بہت زیادہ مدد کی ہے۔ 1984 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد بی جے پی کے پاس صرف دو لوک سبھا سیٹیں تھیں۔ بمشکل دو سال بعد 1986 میں بابری مسجد کے دروازے کھل گئے۔ اچانک بابری مسجد ایکشن کمیٹی ’’ایودھیا مسجد کے دفاع‘‘ کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔

Published: 30 Jun 2022, 7:11 AM IST

کمیٹی نے مسجد کے دفاع میں انتہائی جذباتی انداز اختیار کیا اور مسئلے کو سڑکوں پر لے جانے کا فیصلہ کیا۔ وشو ہندو پریشد کی مسلمانوں سے درخواست تھی کہ بابری مسجد کو خالی کر دیا جائے اور ہندوؤں کو رام مندر تعمیر کرنے دیا جائے کیونکہ ہندوؤں کا خیال ہے کہ یہ مسجد بھگوان رام کی جائے پیدائش پر تعمیر کی گئی تھی۔

Published: 30 Jun 2022, 7:11 AM IST

بابری مسجد ایکشن کمیٹی یعنی بی ایم اے سی نے بڑی ریلیاں نکالیں، جن پر مذہبی جذبات بھڑکانے کا بہت زیادہ الزام لگایا گیا اور اللہ اکبر جیسے جذباتی نعرے لگائے گئے۔ ان ریلیوں سے بڑے پیمانے پر پیغام یہ تھا کہ مسلمان کچھ بھی ہو مسجد نہیں دیں گے۔

Published: 30 Jun 2022, 7:11 AM IST

سنگھ پریوار بشمول بی جے پی خاموشی سے تماشہ دیکھتی رہی جب کہ وی ایچ پی بیانات جاری کرنے میں مصروف تھی اور پریس کانفرنس کر کے وہیں رام مندر کی تعمیر کا عہد کر رہی تھی۔

Published: 30 Jun 2022, 7:11 AM IST

سنگھ نے ایک طویل مدتی حکمت عملی کے ساتھ بہت زیادہ ہوشیار کھیل کھیلا تاکہ بی ایم اے سی کے جذباتی اشتعال میں ہندو ردعمل کو جنم دیا جا سکے۔ بی ایم اے سی کی جانب سے کئی مسلم ریلیاں نکالنے کے بعد، وی ایچ پی بھی اپنے معاملے کو لے کر سڑک پر آگئی۔ آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر بابری مسجد کے معاملے نے فرقہ وارانہ ہندو بمقابلہ مسلم رنگ حاصل کرنا شروع کر دیا اور یہی سنگھ کا گیم پلان تھا۔

Published: 30 Jun 2022, 7:11 AM IST

اگر آپ مسلم فیکٹر کو نکال دیں تو آر ایس ایس اور بی جے پی کی سیاست زمین پر گر جاتی ہے اور ان کے پاس پیش کرنے کے لیے بہت کم ہے۔ بابری مسجد پر بی ایم اے سی کے بیان بازی اور جذباتی اشتعال نے بی جے پی کو ایندھن اور تقویت فراہم کی۔ اڈوانی نے رتھ یاترا نکالی جس میں رام مندر پر ہندوؤں سے اتنی ہی جذباتی اپیل کی گئی۔

Published: 30 Jun 2022, 7:11 AM IST

ہم سب جانتے ہیں کہ کس طرح بی جے پی ہندو ردعمل پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی اور کس طرح بی جے پی نے خود کو ہندوؤں کی واحد پارٹی کے طور پر قائم کیا۔ 1992 میں بابری مسجد کے منہدم ہونے کے بعد بی جے پی نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کے مسلم عوام آج اپنے ہی کمیونٹی لیڈروں کی غیر تصوراتی اور جذباتی سیاسی حکمت عملی کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔

Published: 30 Jun 2022, 7:11 AM IST

ادے پور کا قتل ایک بار پھر ایک ایسا عمل ہے جو ہندوؤں کے ردعمل کو بھڑکا دے گا۔ یہ سانحہ راجستھان میں اگلے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے ہندو ووٹوں کے پولرائزیشن کے لیے زمین تیار کرے گا۔

ہندوستانی مسلمانوں کو سمجھداری سے کام لینا چاہئے اور جذباتی ہو کر جواب نہیں دینا چاہئے۔ ادے پور کے درزی کا سر قلم کرنے والے دو افراد کو قتل اور ملک کے وزیر اعظم کو دھمکی دینے کے جرم میں سزا ملنی چاہیے۔

Published: 30 Jun 2022, 7:11 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 30 Jun 2022, 7:11 AM IST