سیاسی

سونیا گاندھی کو تاریخ یاد رکھے گی

سونیا نے دو اہم کام کئے، ایک تو واجپئی کو ہرا کر ملک میں فرقہ پرستی کے بڑھتے قدموں کو 10 برس تک روک دیا دوسرے کانگریس کو دوبارہ اقتدار حاصل کرواکر منریگا جیسی اسکیم کے ذریعے غریبوں کو بڑی راحت دی۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا سونیا گاندھی اور راہل گاندھی

سونیاگاندھی آج 73 بر س کی ہو گئیں ! وہ اپنی اس سال گرہ کے موقع پر کانگریس کی وراثت خود اپنے بیٹے کو سونپنے کو تیار ہیں ۔ یوں کہیے کہ ان کا سیاسی کیریئر خاتمے کے کگار پر ہے۔ لیکن 19 برس بطور کانگریس صدر سونیا گاندھی نے ہندوستانی سیاست میں جو کر دکھایا اور حاصل کیا اتنی مدت میں بہت کم ہی سیاست داں و ہ حاصل کر پاتے ہیں ۔ سونیا نے جو کچھ بھی حاصل کیا وہ ہندوستانی نظام کی تمام تر مخالفت کے باوجود حاصل کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستانی اعلیٰ ذات نظام کو سونیا سے عداوت تھی۔ تبھی تو جب جب سونیا نے اقتدار کی جانب قدم بڑھایا تب تب نظام کے اشارے پر کسی نہ کسی نے سونیا کے خلاف ’فارن اورجن ‘کا حوا کھڑا کر دیا۔ اور سونیا کو اقتدار حاصل کرنے سے روک دیا گیا۔ لیکن سونیا نے اس کا طریقہ یہ نکالا کہ کانگریس کی باگ ڈور خود اپنے ہاتھوں میں لے لی اور اس دائرے کے اندر وہ جو کچھ کر سکتی تھیں وہ انہوں نے کر دکھایا۔

Published: undefined

سونیا نے جس وقت 1996 میں کانگریس صدر کا عہدہ سنبھالا اس وقت پارٹی ایک ڈوبتی ہوئی ناؤ تھی۔ نرسمہا راؤ کی قیادت میں پارٹی انتخاب ہار چکی تھی۔ سیتا رام کیسری پارٹی کے صدر تھے، جن کو کانگریس دفتر کے باہر کوئی پہچاننے کو بھی تیار نہ تھا۔ پھر 1998 کے چناؤ آتے آتے اٹل بہاری واجپئی مانندسورج ہندوستانی سیاست میں ابھر چکے تھے۔ خود کانگریس کے اندر بھگدڑ مچ گئی تھی۔ نرسمہا راؤ کے حامی رنگا راجن کمار امنگلم اور اسلم شیر خان جیسے واجپئی سے ہاتھ ملا کر بی جے پی میں شامل ہو رہے تھے۔ کانگریس کا شیرازہ بکھرنے کی کگار پر تھا۔

ایسے ماحول میں جب سونیا نے یہ اعلان کیا کہ وہ کانگریس کی باقاعدہ رکن بننے والی ہیں تو گویا مردہ کانگریسیوں کے دلوں میں ایک حرارت پیدا ہو گئی۔ جلد ہی سن 1998 میں وہ کانگریس صدر بن گئیں۔ گو وہ پہلا الیکشن پارٹی کو جتوانے میں کامیاب نہیں ہوئیں لیکن انہوں نے واجپئی سرکار کو جلد ہی اقتدار سے باہر کر دیا۔ اب سونیا خود وزیر اعظم کے عہدے کی دعویدار تھیں۔ بھلا ایک اٹلی نژاد عورت ہندوستانی اعلیٰ ذات نظام کو کیسے منظور ہوتی ! نظام کے اشارے پر ملائم سنگھ یادو نے سونیا کو آخری وقت میں دھوکا دیا اور سونیا وزیر اعظم نہیں بن سکیں۔

Published: undefined

اب سونیا اپنا دائرہ سمجھ چکی تھیں۔ سونیا نے اب اپنے لئے دو ٹارگیٹ طے کئے ۔ پہلا ، خود اپنے اہل خانہ کو اس مقام تک پہنچانا جہاں سے وہ گاندھی خاندان کی وراثت کا تحفظ کر سکیں ۔ دوسرا ، کسی بھی طرح ملک پر منڈرا رہے فرقہ پرست بادلوں سے ملک کو بچانا۔ لیکن شروعاتی دور میں خود ان کی پارٹی، ان کی باتیں سننے کو تیار نہ تھی ۔ سن 1998 کے چناؤ کانگریس خود سونیا کی قیادت میں ہارگئی۔

سونیا اب سمجھ چکی تھیں کہ ملک میں فرقہ پرستی کے بڑھتے قدموں کو کانگریس اکیلی نہیں روک سکتی۔ اس کے لئے ایک متحد سیکولر خیمہ بنانا ہوگا ، لیکن سب سے پہلے اس بات کے لئے خود کانگریس کو تیار کرنا ہوگا۔ سونیا نے اس کام کے لئے پوری کانگریس قیادت کو شملہ میں اکٹھا کیا اور پارٹی کو چناوی اتحاد کی سیاست قبول کرنے پر تیار کر لیا اور بس اس کے بعد لگاتار 10 برس تک سونیا نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔

سن 2004 میں کانگریس کی قیادت میں یوپی اے خیمہ متحد ہو کر واجپئی کے مقابلہ میں چناؤ لڑنے کو تیار تھا ۔ سن 2004 کے چناؤ میں سونیا نے واجپئی کو ہرا کر ملک کو حیرت زدہ کر دیا ۔ لیکن جیسے ہی سونیا کانگریس پارلیمانی پارٹی کی لیڈر چنی گئیں ، بس ان کے خلاف ’فارن اورجن‘ کا شور مچ گیا۔ سونیا نے وزارت اعظمیٰ کے عہدے پر لات ماری اور منموہن سنگھ کو حکومت سونپ کر عوام کی خدمت کا بیڑہ اٹھا لیا۔

سونیا نے دو اہم کام کئے، ایک تو واجپئی کو ہرا کر ملک میں فرقہ پرستی کے بڑھتے قدموں کو 10 برس تک روک دیا، دوسرے، کانگریس کو دوبارہ اقتدار حاصل کرواکر منریگا جیسی اسکیم کے ذریعے ہندوستانی غریب کو وہ راحت دی کہ جس کے ذریعے 10 فیصد خط افلاس سے نچلی سطح کے غریب اس سطح سے باہر آ گئے۔

صرف اتنا ہی نہیں سن 2004 اور 2014 کے درمیان ہندوستانی اقلیتوں کو جو عزت حاصل ہوئی وہ پہلے کبھی نہیں ملی تھی۔ ملک کا وزیر اعظم سکھ، فوج کا سربراہ سکھ اور نائب صدر مسلمان۔ اتنے بڑے عہدوں پر اقلیتوں کے افراد بیک وقت برسر اقتدار ہوں تویہ بات بھلا سنگھ کے گلے سے نیچے کیسے اتر سکتی تھی۔

سن 2012 آتے آتے سنگھ کی پشت پناہی سے منموہن سنگھ حکومت کے خلاف انا ہزارے نے ایک بد عنوانی مخالف تحریک کھڑی کر دی اور چناؤ سے قبل سونیا سمیت کانگریس کی ساکھ گرا دی۔ سن 2014 کے چناؤ میں پورا نظام نریندر مودی کی حمایت اور سونیا کی مخالفت میں کھڑا ہو گیا۔ یہ وہ چناؤ تھا جب سونیا علیل تھیں ، انہوں نے پارٹی کی کمان راہل گاندھی کودے دی جو ’مودی طوفان ‘کا سامنا نہ کر سکے اور کانگریس اقتدار سے باہر ہو گئی۔

لیکن سونیا نے اپنے 19 برس کے کانگریس صدارت کے دور میں سیکولر سیاست کو ایک نئی زندگی دی ، غریبوں کو راحت پہنچائی اور اقلیتوں کی ترقی کے لئے اہم اقدامات اٹھائے۔

ان تمام کاموں کے لئے تاریخ، سونیا کو سدا یاد رکھے گی۔

Published: undefined

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ <a href="mailto:contact@qaumiawaz.com">contact@qaumiawaz.com</a> کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیکمشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined