سیاسی

یوگی کے لیے ’ذات‘ نیا ہتھیار بھی ہو سکتا ہے... اروند موہن

منڈل کمیشن کی سفارشات نافذ ہونے تک پورا آر ایس ایس کنبہ پسماندوں کے لیے خصوصی مواقع سے متعلق سہولت کی مخالفت کرتا تھا۔ لیکن انتخابی مجبوریوں نے اسے یہ تبدیلی قبول کرنے کو مجبور کر دیا۔

یوگی آدتیہ ناتھ / تصویر ٹوئٹر / @ANI
یوگی آدتیہ ناتھ / تصویر ٹوئٹر / @ANI 

اتر پردیش پولیس اب تک درج کیے جانے والے مقدمات میں متعلقہ شخص کی ’ذات‘ کا ذکر بھی کر رہی تھی۔ اس پر پولیس کے سربراہ نے جو وضاحت دی، اس سے ناراض ہو کر الہ آباد ہائی کورٹ کے جج ونود دیواکر نے اس پر فوری روک لگانے کا حکم دے دیا۔ اس کے بعد ریاستی حکومت نے جو کیا، عدالت نے بھی اس کی توقع نہیں کی ہوگی۔ کل تک پولیس اسے پرانی اور مفید روایت بتا رہی تھی، لیکن حکومت نے فوراً حکم جاری کر کے نہ صرف ایف آئی آر میں ذات پات کا ذکر بند کرنے کو کہا بلکہ ذات پات کی ریلیوں، پروگراموں، ذات کے فخر آمیز تذکروں اور گاڑیوں پر ذات کا نام لکھنے جیسی سبھی چیزوں پر پابندی لگا دی۔

Published: undefined

اس فیصلے کا ایک اثر تو مغربی اتر پردیش میں ہو رہی گوجر چوپالوں پر پڑا، جن کے ذمہ داران نے فوراً اس کا نام بدل کر ’پی ڈی اے‘، یعنی پسماندہ، دلت اور اقلیتی تقریب ظاہر کر دیا۔ دوسرا اثر یہ ہوا کہ ریاستی بی جے پی صدر بھوپیندر سنگھ نے اسے ذات پات کے خاتمے کا تاریخی فیصلہ قرار دینے میں دیر نہیں کی۔ اگر انکاؤنٹر اور بلڈوزر پر بھروسہ کرنے والی یوگی حکومت ہے، تو یقین مانیے کہ کچھ وقت بعد اسی ذات پات کے نام پر سختی کی خبریں بھی آئیں گی۔

Published: undefined

بی جے پی ہندوتوا کی سیاست ضرور کرتی ہے لیکن منڈل کمیشن کے بعد سے وہ کسی بھی دوسری پارٹی سے کم ذات پات پر مبنی سیاست نہیں کر رہی۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کا ذات پات کی طرف جھکاؤ اعلیٰ ذاتوں اور مردوں کی طرف ہے۔ وہ ان پارٹیوں سے کم نہیں ہے جن کا نام ہی کسی ذات پر رکھا گیا ہے یا جو بنیادی طور پر ایک ذات کے سماجی سہارے پر سیاست کرتی ہیں۔ دراصل، عدالت کا حکم بی جے پی کے لیے وقتی ریلیف بھی بن گیا، کیونکہ اس کی حکومت میں شامل چھوٹی ذات پر مبنی پارٹیاں اس سے ناپسندیدہ سوال کرنے لگی تھیں۔ ان میں نشاد پارٹی، (راجبھروں کی) سُہیل دیو پارٹی اور (پٹیلوں کی) اپنا دل شامل ہیں۔ خود بھوپیندر سنگھ جس جاٹ برادری سے آتے ہیں، وہاں اثر رکھنے والی آر ایل ڈی بھی ناراض ہے۔ ظاہر ہے، جب ایسی پارٹیاں ناراض ہوں گی تو اپنے سماجی ووٹ بینک کی طرف لوٹنے کی کوشش کریں گی، شکایت کریں گی کہ بی جے پی نے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں ہوئے۔ اس بنیاد پر وہ بی جے پی مخالف پارٹیوں سے نئی سودے بازی کریں گی۔

Published: undefined

بہرکیف، ذات پات کی یہ سیاست آج کی نہیں بلکہ برطانوی دور حکومت سے چلی آ رہی ہے۔ مہاتما گاندھی اور کانگریس کو بھی اس بیماری کا پتہ تھا، لیکن وہ اس کے دائرے اور پیچھے چھپی طاقت کو سمجھتے تھے۔ اسی لیے گاندھی نے آزادی کو اولین ترجیح دی اور درجنوں محاذوں پر لڑائی لڑی۔ اپنے ذاتی عمل میں انہوں نے ذات پات کو نہیں مانا، لیکن اپنی بیوی اور خاندان سے لے کر پورے ملک میں ذات پر مبنی امتیاز اور چھواچھوت کے خلاف مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ انہوں نے ہریجن یاترا نکالی، مندر میں داخلہ کے لیے تحریک چلائی، ہریجن پر مبنی اخبار نکالا اور اپنے 3 بڑے پروگراموں میں چھواچھوت کے خاتمے کو ہمیشہ شامل رکھا۔ اس سے بڑھ کر وہ بابا صاحب امبیڈکر کی ہر شکایت پر غور کرتے رہے، خود کو بدلتے رہے اور اس بات سے بھی خبردار رہے کہ انگریز اس نام پر سماج کو تقسیم کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔

Published: undefined

مہاتما گاندھی جانتے تھے کہ ’ذات‘ کتنی طاقتور ہے اور قومی تحریک کی قیادت میں کس طرح اعلیٰ ذاتوں کے لوگ حاوی ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ذات پات نے ہی بدھ مت کو نگل لیا، کیونکہ وہ ذات توڑنے کی مہم چلا رہا تھا۔ انہیں یہ بھی پتہ تھا کہ بدھ مت کے بعد سناتن دھرم کو نئی توانائی دینے والے شنکرآچاریہ نے بھی ذات پات کو براہِ راست چیلنج نہیں کیا بلکہ اسے ’مایا‘ کہہ کر آگے بڑھ گئے۔ اس سے سیدھا مقابلہ کرنے اور سماج پر اس کے نقصان دہ اثرات کی طرف سب سے پہلے سوامی وویکانند نے توجہ دلائی اور اعلان کیا کہ جب تک جمود نہیں ٹوٹے گا، ہندوستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہندوستان ’شودر‘ ہوگا اور شودر ہی اس کی قیادت کریں گے۔ گاندھی اس منتر کو لے کر آگے بڑھے اور بابا صاحب بھی اسی منتر کے ساتھ چلے۔ دونوں کے طریقے الگ تھے۔ ایک ذہن بدلنا چاہتا تھا، دوسرا اقتدار چاہتا تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ معاشرتی شعور اور وسعت پسندی بڑھی اور ساتھ ہی قانونی و حکومتی نظام بھی بنے۔ دونوں دھارے یہاں ملے۔ بہت کچھ بدلا ہے، لیکن ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں کہ 100 سال کی اتنی بڑی تحریک کے بعد بھی ذات اور اس کی برائیاں کس حال میں ہیں۔

Published: undefined

اتر پردیش میں اب ایک سرکاری حکم کے ذریعہ تاریخ رقم کرنے کی گمراہی پھیلانے والی بی جے پی کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ بڑی حقیقت یہ ہے کہ منڈل کمیشن کی سفارشات نافذ ہونے تک پورا آر ایس ایس کنبہ پسماندوں کو خصوصی مواقع دینے کا مخالف تھا۔ لیکن انتخابی مجبوریوں نے اسے اپنا رخ بدلنے پر مجبور کیا۔ پھر بھی دلتوں، خواتین، اقلیتوں اور پسماندوں کے تئیں اس کا رویہ آج بھی ظاہر ہے۔ یہ تب ہے جب مرکز میں ایک مبینہ پسماندہ ہی وزیر اعظم ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے کبھی دلتوں کے لیے نمائش سے زیادہ کچھ کیا ہو، اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ بین المذاہب شادیاں تو اس کی سیاست کا ہتھیار ہیں ہی، بین ذات شادی بھی اسے قبول نہیں ہے۔

Published: undefined

دراصل ذات کو معمولی سمجھنا اصل سوال سے نظریں چرانا ہے، کیونکہ ذات کو توڑنے اور چھوڑنے کے لیے بہت ہمت، پختہ ارادہ اور زبردست طاقت چاہیے۔ ذات ایک انتہائی مضبوط ڈھانچہ ہے، لیکن یہ بے حد لچکدار بھی ہے۔ وہ وقت، جگہ اور معاشی و سماجی حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیتی ہے۔ سب سے بڑھ کر، اس پر مذہبی اقتدار کی مہر بھی لگی ہے۔ بیٹی-روٹی کے رشتے سے لے کر سیاسی اقتدار تک کا رشتہ بنانے اور چلانے میں اس کا اہم کردار ہے۔ اور یہ صرف سماجی و سیاسی ہی نہیں، بلکہ معاشی اور نفسیاتی سطح پر بھی اثر ڈالتی ہے۔ دلت ہونا مطلب خودداری کی کمی ہونا بھی ہے، جو صرف دلت ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے بھر سے نہیں آتی بلکہ سماج کی بے شمار محرومیاں اس کے ساتھ جڑی ہیں۔ لہٰذا، بی جے پی کو اس بہانے ایک ایسا کھیل کا سامان ہاتھ لگ گیا ہے جو خطرناک ہی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined