سیاسی

بجٹ میں ووٹ لینے کی کوشش کی گئی ہے مسائل حل کرنے کی نہیں

حکومت کو پورے دیہی اور زرعی معیشت میں اصلاح کے طریقوں پر از سر نو غور کر کے تدارکی اقدام کرنا ہوں گے، تبھی کسانوں کے مسائل حل ہوں گے، خیرات دینے سے نہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

عام انتخابات سے محض چند ماہ قبل بجٹ پیش کرنے پر بضد مودی حکومت نے اگر چہ اپوزیشن کے دباؤ میں اس کا نام عبوری بجٹ تو رکھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے مکمل بجٹ ہی پیش کیا ہے، جس کا واضح مقصد سرکاری خزانہ کے ذریعہ ووٹروں کو لبھانا ہے، انتخابی سال میں ہر پارٹی کی حکومت ووٹروں کو لبھانے کے لئے ایسے ہی بجٹ پیش کرتی ہے لیکن مودی سرکار نے تمام آئینی جوازوں اور روایت کو بالائے طاق رکھ کر ایک ایسا بجٹ پیش کر دیا ہے جسے پورا کرنے میں نئی حکومت کو چاہے وہ مودی جی کی ہی کیوں نہ ہو دانتوں پسینے آ جائیں گے۔

یہ بجٹ غیر آئینی طور سے پیش کیا گیا ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت تو یہی ہے کہ 5 سال کے لئے منتخب کی گئی حکومت کا یہ چھٹا بجٹ ہے جسے تکنیکی طور سے بھلے ہی عبوری بجٹ کہا جا رہا ہے لیکن ہے تو یہ مکمل بجٹ ہی، دوسرے ہر بجٹ سے پہلے حکومت اقتصادی جائزہ جاری کرتی ہے تاکہ سابقہ بجٹ کی کامیابیوں اور خامیوں کو عوام کے سامنے لایا جا سکے اور ملک کی حقیقی اقتصادی صحت کا اندازہ عوام کو ہو سکے، مودی حکومت نے اپنی خامیوں اور اقتصادی محاذ پر اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لئے اس بار اقتصادی جائزہ پیش ہی نہیں کیا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ عبوری بجٹ پیش کر رہی ہے-

اس بجٹ میں گزشتہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی شکست اور کسانوں و نوجوانوں کے لئے صدر کانگریس راہل گاندھی کے اعلانات کا نمایاں اثر دکھائی دے رہا ہے، بی جے پی کا کور ووٹ بنک ہمیشہ سے متوسط طبقہ رہا ہے، اب تک کی معاشی پالیسیوں خاص کر نوٹ بندی کا سب سے خراب اثر بھی اسی طبقہ پر پڑا ہے اس طبقہ کو لبھانے کے لئے اس نے انکم ٹیکس میں بڑی راحت کا اعلان کیا ہے، اب پانچ لاکھ سالانہ آمدنی تک انکم ٹیکس نہیں دینا پڑیگا، عملی طور سے یہ حد ساڑھے چھ لاکھ روپیہ سالانہ تک جائے گی۔

ٹیکس ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ٹیکس دہندہ تھوڑی دور اندیشی سے سرمایہ کاری کریں تو 10 لاکھ روپیہ سالانہ تک کی آمدنی پرانکم ٹیکس بچایا جا سکتا ہے، لیکن اس سہولت میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آمدنی پانچ لاکھ سے ذرا سی بھی اوپر ہوئی، مثال کے طور پر پانچ لکھ دس ہزار آمدنی ہوئی تو پرانہ سلیب ہی لاگو ہوگا اور یہ سہولت دھری کی دھری رہ جائے گی، پھر بھی یہ ایک بڑی سہولت ہے جس کا خاص فائدہ ملازمت پیشہ افراد کو ملےگا۔

سرکاری خزانہ پر اس کا کیا اثر پڑے گا حکومت نے اسے واضح نہیں کیا ہے لیکن چونکہ سابقہ سلیب کے تحت بھی عملی طور سے چار لاکھ تک کی آمدنی والے انکم ٹیکس سے بچ جاتے تھے اب 6 لاکھ تک کی آمدنی والے اس سے بچ جائیں گے اس مد سے سرکاری خزانہ پر کوئی خاص بوجھ پڑنے کا امکان نہیں ہے۔

Published: undefined

حکومت کا دوسرا سب سے اہم اعلان کسانوں کو 6 ہزار روپیہ سالانہ کی نقد امداد دینا ہے یہ امداد 2 ہیکٹر یعنی قریب پانچ ایکڑ زمین رکھنے والے کسانوں کو دو دو ہزار روپیہ کی 3 قسطوں میں دی جائے گی جس کی پہلی قسط اس سال مارچ میں کسانوں کے کھاتے میں پہنچ جائے گی، جو الیکشن سے قبل ان کے لئے حکومت کی طرف سے تحفہ ہوگی۔

اس سے قبل ایسی اسکیم تلنگانہ اور اڈیشہ کی سرکاروں نے لاگو کی تھیں، اگر اس اسکیم کا باریکی سے تجزیہ کیا جائے تو کسان کوقریب 17 روپیہ یومیہ کی امداد ملے گی جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کی مثال پر بھی کھری نہیں اترتی، دوسرے براہ راست آمدنی ٹرانسفر اسکیم میں کئی خامیاں ہیں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ کسانوں کا ایک بڑا طبقہ بٹائی اور ٹھیکے پر کاشتکاری کرتا ہے، جبکہ یہ رقم کھیت مالک کے کھاتے میں جائے گی، فصل بونے کے تمام اخراجات تو ان بٹائی یا ٹھیکے کے کاشتکاروں کے ہوں گے اور سرکاری امداد کھیت مالک کے کھاتے میں جائے گی۔ دوسری جانب اگر حکومت نے ان بٹائی داروں یا ٹھیکیداروں کے حق میں کوئی قانون بنانے کی کوشش کی تو کھیت مالک ان سے اپنے کھیت واپس لے لگا کیونکہ کوئی بھی کھیت مالک ایسا کوئی خطرہ کبھی نہیں اٹھا ئے گا جس سے اس کے مالکانہ حقوق کے لیے کبھی کوئی خطرہ پیدا ہو-

دوسرے کسانوں کا اصل مسئلہ حکومت یا تو سمجھتی نہیں یا سمجھنا چاہتی نہیں، کسان کا اصل مسئلہ ہے اسے اپنی پیداوار کی مناسب قیمت ملنا، جس کے لئے سابقہ منموہن حکومت نے سوامی ناتھن کمیشن تشکیل کی تھی، جس نے سفارش کی تھی کہ کسانوں کو ان کی پیداواری لاگت پر پچاس فیصدی کا فائدہ دے کر حکومت کم از کم خریداری قیمت کا تعین کرے، بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں اس کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن آج تک اس پر عمل نہیں ہوا، دوسری بات جو کسان کا سب سے اہم مسئلہ ہے وہ اعلان شدہ سرکاری قیمتوں پر ان کی کل پیداوار کی بر وقت خریداری اور فوری ادائے گی، حکومت سہارا قیمتوں کا اعلان تو کر دیتی ہے لیکن اس قیمت پر کسانوں کی پیداوار فروخت ہو اور انھیں بر وقت پیسہ مل جائے، اس پر حکومت توجہ نہیں دیتی، اگر صرف یہی دو کام ایمانداری سے کر دیئے جائیں تو ہندوستانی کسانوں کو کسی امداد کی ضرورت نہیں ہوگی۔

کسانوں کے مسائل نہ قرض معافی سے حل ہوں گے اور نہ ہی اس طرح کی خیرات سے کسانوں کے مسائل حل ہوں گے، ان کی قوت خرید بڑھانے سے اس کے لئے ان کی پیداوار کی منافع بخش قیمت دینے، پوری پیداوار کی فروخت یقینی بنانے، پیداواری ضروریات جیسے کھاد، بیج، ڈیزل اور بجلی وغیرہ کی سستی اور حسب ضرورت سپلائی یقینی بنانے، منڈی پر کنٹرول کرنے تاکہ آڑھتی ان کا استحصال نہ کر سکیں۔

زراعت کے علاوہ دیگر طریقوں سے ان کی آمدنی بڑھانے کے لئے سب سے اہم اور ضروری طریقہ ہے مویشی پروری، لیکن حکمرانوں کے گائے پریم کی وجہ سے ان کا یہ ذریعہ ان سے چھین لیا گیا ہے یہاں تک وہ اپنے بیکار ہوچکے جانور فروخت نہیں کر پا رہے ہیں، اوپر سے آوارہ جانور ان کی فصلیں برباد کر رہے ہیں، کسانوں کے جانور اے ٹی ایم کا کام کرتے تھے لیکن اب وہ ان کے لئے بوجھ بن گئے ہیں، حکومت کو پورے دیہی اور زرعی معیشت میں اصلاح کے طریقوں پر از سر نو غور کر کے تدارکی اقدام کرنا ہوں گے، تبھی کسانوں کے مسائل حل ہوں گے، خیرات دینے سے نہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined