امریکی دارالحکومت سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اپنے اوّلین سرکاری دورے پر امریکا گئے پاکستانی سربراہ حکومت نے پیر بائیس جولائی کے روز کہا کہ امریکی فوجی کمانڈوز نے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اپنی جس شبینہ کارروائی میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے روپوش سربراہ کو ان کی رہائش گاہ پر ہلاک کر دیا تھا، وہ ان خفیہ اطلاعات کی وجہ سے ممکن ہو سکی تھی، جو پاکستانی انٹیلیجنس نے امریکی حکام کو مہیا کی تھیں۔
Published: undefined
اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے سرکاری طور پر ہمیشہ اس بات سے انکار ہی کیا ہے کہ اسے یہ خبر تھی کہ اسامہ بن لادن کہاں چھپے ہوئے تھے۔ پھر دو مئی 2011ء کو ایبٹ آباد شہر میں رات کے وقت کی گئی ایک خفیہ امریکی فوجی کارروائی میں بن لادن کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا تھا، جو پاکستان کے لیے قومی سطح پر نہ صرف بہت زیادہ شرمندگی کا سبب بنا تھا بلکہ اس کی وجہ سے اسلام آباد اور واشنگٹن کے باہمی تعلقات میں بہت کھچاؤ بھی پیدا ہو گیا تھا۔
Published: undefined
Published: undefined
اسی سلسلے میں عمران خان سے امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران جب پیر کی رات یہ پوچھا گیا کہ آیا پاکستانی حکومت ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کر دے گی، تو عمران خان نے کہا، ''یہ ایک بہت جذباتی معاملہ ہے، اس لیے کہ شکیل آفریدی کو پاکستان میں ایک جاسوس سمجھا جاتا ہے۔‘‘
Published: undefined
شکیل آفریدی وہی پاکستانی ڈاکٹر ہیں، جنہوں نے سی آئی اے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ایک جعلی ویکسینیشن مہم کے ذریعے امریکا کی مدد کی تھی کہ وہ یہ پتہ چلا سکے کہ بن لادن کہاں چھپے ہوئے تھے۔ یہ طے ہونے کے بعد کہ ایبٹ آباد شہر میں ایک بڑے کمپاؤنڈ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر شخص اسامہ بن لادن ہی تھے، امریکا نے آٹھ سال قبل مئی کے مہینے میں وہاں خفیہ فوجی آپریشن کیا تھا۔
Published: undefined
فوکس نیوز کے ساتھ انٹرویو میں جب میزبان بریٹ بائیر نے پاکستانی وزیر اعظم سے بن لادن کے بارے میں ایک اور سوال پوچھا، تو عمران خان نے کہا، ''پاکستان میں ہم ہمیشہ یہ محسوس کرتے تھے کہ ہم امریکا کے اتحادی ہیں۔ اور اگر ہم نے بن لادن کے بارے میں امریکا کو اطلاع دی تھی، تو انہیں پکڑنا بھی ہمیں ہی چاہیے تھا۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
جب عمران خان سے یہ پوچھا گیا کہ آیا وہ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی طرف سے انتہائی اہم معلومات افشاء کیے جانے کے بعد اس ایجنسی کے بارے میں کافی کم امیدی بھی پائی جاتی تھی، تو پاکستانی وزیر اعظم نے کہا، ''یہ آئی ایس آئی ہی تھی، جس نے امریکا کو وہ اطلاعات مہیا کی تھیں، جن کی بنیاد پر یہ طے ہو سکا تھا کہ بن لادن کہاں چھپے ہوئے تھے۔ اگر آپ سی آئی اے سے پوچھیں، تو وہ بھی یہی کہیں گے کہ پاکستان کی انٹرسروسز انٹلیجنس ہی وہ ایجنسی تھی، جس نے ٹیلی فون رابطے کی بنیاد پر اس بارے میں اولین اطلاع دی تھی کہ بن لادن کہاں تھے۔‘‘
Published: undefined
اس بارے میں اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں اے ایف پی نے لکھا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم کے اس دعوے کے باوجود یہ بات واضح نہیں کہ وہ درحقیقت کس طرح کی معلومات اور ان کی امریکا کو فراہمی کی بات کر رہے تھے۔ اس حوالے سے عمران خان نے اس سے زیادہ کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔
Published: undefined
Published: undefined
اگرچہ پاکستان آج بھی سرکاری طور پر ایسے دعووں کی تردید کرتا ہے کہ ملکی حکام جانتے تھے کہ پاکستانی سرزمین پر ہی بن لادن کہاں چھپے ہوئے تھے، تاہم آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ اسد درانی نے 2015ء میں الجزیرہ ٹی وی کو بتایا تھا کہ آئی ایس آئی کو غالباً علم تھا کہ بن لادن کہاں چھپے ہوئے تھے اور القاعدہ کے سربراہ کی ہلاکت تک پاکستانی حکام کو امید تھی کہ وہ شاید بن لادن کی ممکنہ گرفتاری کو امریکا کے ساتھ اپنی بات چیت میں ایک 'چِپ‘ کے طور پر اپنے حق میں استعمال کر سکتے تھے۔
Published: undefined
پاکستانی حکومت کی ایک لیک ہو جانے والی رپورٹ کے مطابق 2001ء میں افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے فوجی حملے کے بعد 2002ء کے موسم گرما میں بن لادن افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان پہنچ گئے تھے اور اگست 2005ء میں وہ ایبٹ آباد میں قیام پذیر ہو گئے تھے، جہاں مئی 2011ء میں وہ امریکی فوجی کمانڈوز کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: بشکریہ محمد تسلیم
تصویل: کانگریس میڈیا ڈپارٹمنٹ
تصویر: پریس ریلیز
تصویر: بشکریہ محمد تسلیم