دیگر ممالک

طالبان کو روکا جا سکتا تھا اگر اشرف غنی اچانک فرار نہ ہوتے۔ زلمے خلیل زاد

امریکی صدر جو بائیڈن نے اصرار کیا تھا کہ امریکی فوجی صرف امریکی شہری اور افغان اتحادیوں کو نکالنے کے لیے کام کریں گے۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس  

افغانستان میں طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے اور نئی عبوری حکومت کی تشکیل کے بعد مزاکرات کار زلمے خلیل زاد نے کہا کہ اگر سابق صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر نہیں جاتے تو طالبان کو کابل میں داخل ہونے سے روکا جاسکتا تھا۔

Published: undefined

امریکی مذاکرات کار نے کہا ہے کہ گزشتہ ماہ سابق افغان صدر اشرف غنی کے اچانک چلے جانے نے ایک معاہدہ ناکام بنادیا جس کے تحت طالبان کو کابل میں داخلے سے روکا جاتا اور سیاسی منتقلی پر بات چیت کی جاتی۔

Published: undefined

ڈان میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 20 سال سے مغرب کی حمایت سے چلنے والی افغان حکومت کے ختم ہونے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں زلمے خلیل زاد نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ باغی, دارالحکومت کے باہر 2 ہفتوں تک رکنے اور مستقبل کی حکومت کا ڈھانچہ تشکیل دینے پر رضامند تھے۔
امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ’حتیٰ کے آخر میں بھی ہمارا طالبان کے ساتھ معاہدہ ہوگیا تھا کہ وہ کابل میں داخل نہیں ہوں گے‘۔بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’لیکن 15 اگست کو اشرف غنی فرار ہوگئے اور طالبان نے چیف آف کمانڈ جنرل فرینک میکینزی کے ساتھ پہلے سے طے شدہ اجلاس میں پوچھا کہ چونکہ حکومت ختم ہوگئی ہے تو کیا امریکی افواج کابل کی سیکیورٹی یقینی بنائیں گی'۔امریکی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ ’اور پھر آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوا، ہم یہ ذمہ داری نہیں لینے والے تھے‘۔

Published: undefined

امریکی صدر جو بائیڈن نے اصرار کیا تھا کہ امریکی فوجی صرف امریکی شہری اور افغان اتحادیوں کو نکالنے کے لیے کام کریں گے اور امریکہ کی طویل ترین جنگ کی مدت میں توسیع نہیں کریں گے۔

Published: undefined

دوسری جانب زلمے خلیل زاد کے ریمارکس کے بارے میں سوال پوچھنے پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ کابل میں ’ایک لمحے تک‘ ٹھہرنا کوئی آپشن نہیں تھا۔انہوں نے کہاکہ امریکہ کے ٹھہرنے کے لیے کبھی کوئی حقیقت پسندانہ، قابل عمل اور عملی آپشن نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں بہت واضح تاثر دیا گیا کہ اگر امریکہ نے زمین پر ہماری موجودگی کو طول دینا چاہا تو ہمارے فوجی پھر طالبان کے تشدد کا نشانہ بنیں گے، یہاں انہوں نے داعش جیسے گروہوں کے دہشت گرد حملوں کا ذکر نہیں کیا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined