دیگر ممالک

حجاب ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں:نئی ڈپٹی ڈسٹرکٹ جج رفیعہ ارشد کابیان

مسلم خواتین اپنی صلاحیتوں کے مطابق مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتی ہیں اور حجاب معاشرے میں ان کی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہوتا۔

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا  

پوری دنیا میں مسلم خواتین کا حجاب ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے اور اس پر آئے دن بحث ہوتی رہتی ہے کہ حجاب مسلم خواتین کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ 40 سالہ حجاب پہننے والی مسلم خاتون جج رفیعہ ارشد کو گذشتہ ہفتے برطانیہ کے علاقے مڈلینڈز سرکٹ میں ڈپٹی ڈسٹرکٹ جج مقرر کیا گیاہے اور حجاب سے متعلق ان کی رائے ہے کہ حجاب ترقی کے راستہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

Published: 29 May 2020, 9:04 AM IST

رفیعہ ارشد نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو دئے گئے ایک انٹر ویو میں بتا یا کہ انھوں نے 11 سال کی عمر ہی میں قانون کا پیشہ اختیار کرنے کے خواب دیکھنا شروع کردیے تھے لیکن سوال یہ تھا کہ کیا ایک نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے اور حجاب اوڑھنے کے باوجود وہ برطانیہ میں جج کے منصب پر فائز ہوسکتی ہیں؟

Published: 29 May 2020, 9:04 AM IST

برطانیہ کے جوڈیشیل دفتر کے یکم اپریل 2019 کو فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق انگلینڈ اور ویلز کی ماتحت عدالتوں میں 3210 جج کام کررہے ہیں۔ان میں صرف 205(6 فی صد) جج سیاہ فام ، ایشیائی اور نسلی اقلیتوں (بیم) کے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ان تمام جج میں قریباً ایک تہائی 1013 (31 فی صد) خواتین ہیں۔رفیعہ ارشد اب ان خواتین ججوں میں سے ایک ہیں۔ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کے تین بچے ہیں۔

Published: 29 May 2020, 9:04 AM IST

رفیعہ نے اپنی تقرری کے بعد ایک انٹرویو میں کہا:’’وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ برطانوی معاشرت میں تنوع کی آواز بلند آہنگ ہو اور صاف انداز میں سنی جائے۔یہ صرف مسلم خواتین ہی نہیں بلکہ تمام خواتین کے لیے اہم ہے۔‘‘

Published: 29 May 2020, 9:04 AM IST

انھوں نے بتایا کہ انھیں بہ طور جج تقرر کے بعد مرد وخواتین دونوں کی طرف سے ای میل کے ذریعے بڑی تعداد میں تہنیتی پیغامات موصول ہوئے ہیں اورانھوں نے بالخصوص اس بات پرخوشی کا اظہار کیا ہے کہ ایک سرپوش اوڑھنے والی خاتون بھی برطانیہ میں جج بن گئی ہے۔ان میں سے بہت سے لوگوں کا پہلے یہ خیال تھا کہ ایک عورت تو برطانیہ میں بیرسٹر بھی نہیں بن سکتی ، چہ جائیکہ وہ منصب قضاۃ پر فائز ہوجائے ۔

Published: 29 May 2020, 9:04 AM IST

رفیعہ ارشد ویسٹ یارکشائر میں پلی بڑھی تھیں۔وہ بتاتی ہیں کہ قانون کا پیشہ اختیار کرتے وقت انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور خود ان کے خاندان کے افراد نے ان کے حجاب اوڑھنے کی مخالفت کی تھی اور یہ کہا تھا کہ اس صورت میں ان کی کامیابی کے امکانات معدوم ہوسکتے ہیں لیکن اس کے باجود انھوں نے ہمت ہاری اور نہ ان کے عزم میں کمی واقع ہوئی۔

Published: 29 May 2020, 9:04 AM IST

وہ بتاتی ہیں:’’جب میں2001ء میں ’انزآف کورٹ اسکول آف لا‘ میں ایک اسکالرشپ کے لیے انٹرویو دینےجا رہی تھی تو ہمارے خاندان کے ایک رکن نے یہ مشورہ دیا کہ میں حجاب نہ پہنوں کیونکہ اگر میں نے ایسا کیا تو میرے کامیابی امکانات ڈرامائی طور پر کم ہوجائیں گے۔حتیٰ کہ اس رشتے دار نے مجھے خبردار بھی کیا لیکن میں نے ان کے دباؤ کے آگے جھکنے سے انکار کردیا۔‘‘

Published: 29 May 2020, 9:04 AM IST

انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’’میں اس ادارے میں حجاب پہن کر انٹرویو کے لیے گئی،میں کامیاب ٹھہری اور مجھے وظیفے کے لیے منتخب کر لیا گیا تھا۔ میری زندگی میں یہ ایک فیصلہ کن موڑ تھا اور اس سے میرے عزم کو مزید تقویت ملی تھی۔‘‘

Published: 29 May 2020, 9:04 AM IST

لندن میں قانون کی تربیت کے بعد رفیعہ نے 2002ء میں نوٹنگم میں ٹرینی وکیل کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا تھا۔ پھرانھوں نے 2004ء سینٹ فیملی لا چیمبرز میں بہ طور بیرسٹر کام کیا۔ وہ گذشتہ 15 سال کے دوران میں بچوں ، جبری شادی ،خواتین کے ختنے اور اسلامی شریعت سے متعلق کیسوں کی بہ طور وکیل پیروی کرتی رہی ہیں۔وہ اسلام کے عائلی قوانین کے موضوع پر ایک کتاب کی مصنفہ بھی ہیں۔

Published: 29 May 2020, 9:04 AM IST

انھوں نے بتایا کہ انھیں قانون کی پریکٹس کے دوران میں اکثر متعصبانہ رویّے کا سامنا رہا ہے اور بعض اوقات دلچسپ واقعات بھی پیش آئے ہیں۔وہ بتاتی ہیں:’’ایک مرتبہ میں عدالت میں گئی تو مجھے ایک اردلی نے پوچھا کہ’’کیا میں کوئی مؤکلہ یا درخواست گزار ہوں۔‘‘اس پر میں نے جواب دیا کہ ’’نہیں۔‘‘وہ پھر یوں گویا ہوا کہ ’’آپ پھر ضرور مترجم ہوں گی۔‘‘ میں نے اس کا ناں میں جواب دیا تو پھر وہ بولا:’’شاید آپ یہاں کام کے تجربے کے سلسلے میں آئی ہوں گی۔‘‘اس کا بھی میں نے نہیں میں جواب دیا اور اس کو بتایا کہ ’’میں دراصل ایک بیرسٹر ہوں۔‘‘

Published: 29 May 2020, 9:04 AM IST

ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ برطانیہ جیسے معاشرے میں بھی ایک محجب خاتون کو وکیل کے طور پر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے لیکن انھوں نے واضح کیا کہ ’’میرا تقرر خالصتاً میرٹ پر ہوا ہے اور اس بنا پر نہیں ہوا کہ میں حجاب پہنتی ہوں۔اس میں مسلم خواتین کے لیے سبق پنہاں ہے کہ وہ بھی حجاب پہن کر زندگی کے میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتی ہیں۔‘‘

Published: 29 May 2020, 9:04 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 29 May 2020, 9:04 AM IST