دیگر ممالک

لندن میں ایک لاکھ سے زائد امیگریشن مخالف مظاہرین سڑکوں پراترے

لندن میں 'یونائٹ دی کنگڈم' کے نام سے امیگریشن مخالف ریلی نکالی گئی، جس میں تقریباً 1 لاکھ 10 ہزار افراد ٹومی رابنسن کی قیادت میں احتجاج کے لیے جمع ہوئے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ سوشل میڈیا، ویڈیو گریب</p></div>

تصویر بشکریہ سوشل میڈیا، ویڈیو گریب

 

برطانیہ کی حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا دائیں بازو کا مظاہرہ ہفتے کے روز لندن کے سینٹرل علاقے میں دیکھا گیا۔ 1 لاکھ سے زیادہ مظاہرین ایک مارچ میں متحد ہوئے جس کی قیادت امیگریشن مخالف کارکن ٹومی رابنسن کر رہے تھے۔ پولیس نے بتایا کہ اس دوران کئی پولیس اہلکاروں پر حملے بھی ہوئے۔ یہ احتجاج یونائٹ دی کنگڈم مارچ کے نام سے منعقد کیا گیا تھا۔

Published: undefined

میٹروپولیٹن پولیس کو جھڑپوں کو روکنے کے لیے دن بھر کئی بار جدوجہد کرنی پڑی۔ پولیس نے 'یونائٹ دی کنگڈم' ریلی کے مظاہرین کو’ نو پروٹسٹ زون‘ میں داخل ہونے، پولیس کی حفاظتی حصار توڑ کر یا مخالف گروپ کے قریب جانے سے روک دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرے کے دوران کئی اہلکاروں پر حملہ کیا گیا۔ جواب میں پولیس کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی۔

Published: undefined

ریلی کا آغاز برطانیہ میں تارکین وطن کے ہوٹلوں کے باہر احتجاج سے ہوا، جس کے شرکاء نے یونین جیک اور سرخ سفید سینٹ جارج کراس کے جھنڈے لہرائے۔ کچھ لوگوں نے امریکی اور اسرائیلی جھنڈے بھی دکھائے۔ بہت سے مظاہرین نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ 'میک امریکہ گریٹ اگین' کی ٹوپیاں بھی پہن رکھی تھیں۔ انہوں نے برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر پر تنقید کرتے ہوئے نعرے لگائے اور 'انہیں گھر بھیج دیں' جیسے پیغامات والے پلے کارڈز بھی دکھائے۔ کچھ لوگ اپنے بچوں کو بھی مظاہرے میں لے کر آئے۔ ریلی میں مظاہرین نے امریکی کنزرویٹو رہنما چارلی کرک کے حالیہ قتل پر بھی سوگ منایا۔

Published: undefined

رابنسن خود کو ایک صحافی کے طور پر بتاتے ہیں جو حکومتی خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے اور امریکی ارب پتی ایلون مسک جیسے بااثر لوگوں کو اپنے حامیوں میں شمار کرتا ہے۔ دوسری جانب میٹروپولیٹن پولیس نے ریلی کی وجہ سے ہفتے کے روز لندن میں سیکیورٹی کے لیے 1600 سے زائد پولیس اہلکار تعینات کیے تھے۔ ان میں 500 اضافی افسران بھی شامل تھے جنہیں دوسری فورسز سے مدد کے لیے بلایا گیا تھا۔ پولیس کا کام صرف احتجاج کو ہینڈل کرنا نہیں تھا بلکہ شہر میں ہونے والے فٹ بال میچوں اور کنسرٹس کی نگرانی بھی کرنا تھا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined