عراقی پارلیمنٹ نے جمعرات کو وزیر اعظم محمد شیعہ السودانی کی سربراہی میں 21 رکنی نئی کابینہ کی اپنی منظوری دے دی۔ گزشتہ سال کسی نتیجے کے بغیر ووٹنگ کے بعد مختلف شیعہ دھڑوں کے درمیان شدید اختلافات کی وجہ سے پارلیمان سیاسی تعطل کا شکار ہو گئی تھی۔
Published: undefined
نئے وزیر اعظم نے جمعرات کے روز ووٹنگ کے بعد کہا، "ہماری وزارتی ٹیم ایک ایسے نازک دور میں ذمہ داری نبھائے گی جس میں دنیا زبردست سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں اور تنازعات کا مشاہدہ کر رہی ہے۔"
Published: undefined
نئے وزیر اعظم 52 سالہ السودانی کا تعلق ایران نواز کوارڈینیشن فریم ورک پارلیمانی دھڑے سے ہے جو مقبول عالم دین مقتدی الصدر کی ہدایت پر الگ ہو جانے والے قانون سازوں پر مشتمل مخالف شیعہ بلاک کے بعد اس وقت پارلیمان میں سب سے بڑا گروپ ہے۔
Published: undefined
السودانی مصطفیٰ الکاظمی سے اقتدار سنبھال رہے ہیں، جو ملک میں بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہروں کی وجہ سے مشکل حالات اور قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کے بعد عبوری وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس تازہ پیش رفت سے بھی سیاسی تعطل سے پید ہونے والی عوامی ناراضی میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے۔ عوام اس صورت حال کو بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
Published: undefined
السودانی نے پارلیمان میں تقریر کرتے ہوئے کہا، کہ "بدعنوانی کی وبا، جس نے زندگی کے تمام پہلووں کو متاثر کر دیا ہے، وہ کورونا وبا سے زیادہ مہلک ہے اور بہت سے معاشی مسائل، ریاست کی عملداری کو کمزور کرنے، غربت، بے روزگاری اور ناقص عوامی خدمات میں اضافہ کا سبب بنی ہے۔"
Published: undefined
Published: undefined
عراق برسوں سے تنازعات اور بدانتظامی کا شکار ہے۔ حالیہ سیاسی تعطل نے اس کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا ہے۔ رواں برس کا ملکی بجٹ بھی منظور نہیں ہوسکا ہے جب کہ تیل سے ہونے والی آمدنی بھی کافی متاثر ہوئی ہے۔ ملازمتوں اور عوامی خدمات کی کمی، جس نے حکومت مخالف مظاہروں کو جنم دیا،وہ مزید بدتر ہو گئے ہیں۔
Published: undefined
مقتدی الصدر اور ان کے پیروکاروں کی مخالفت نے چیلنجز میں اضافہ کر دیا ہے۔ شیعہ عالم دین پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش میں اپنے ہزاروں حامیوں کو سڑک پر لانے میں کامیاب رہے تھے۔ لیکن جب اس سے مقصد حل نہیں ہوسکا تو انہوں نے پارلیمان کی عمارت پر کئی مرتبہ دھاوا بولا اور اس پر قبضہ بھی کرلیا۔
Published: undefined
بالخصوص محنت کش طبقات کے علاقے، جسے صدر سٹی کے نام سے جانا جاتا ہے، میں مقتدی الصدر کی مقبولیت اور السودانی کے قریبی اتحادی اور سابق وزیر اعظم نوری المالکی کے خلاف ان کے رویے سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ وہ عراق کے کمزور سیاسی نظام میں خلل ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز
تصویر: محمد تسلیم