خبریں

عالمی یومِ آزادیٔ پریس: رعنا ایوب کی ٹرولنگ صحافیوں پر بڑھتے حملوں کی مثال

صحافی طبقہ آج جس قسم کی دھمکیاں اور ذہنی و جسمانی تکلیف برداشت کر رہا ہے اس پر مذاکرہ بہت ضروری ہے۔ رعنا ایوب اور رویش کمار کی ٹرولنگ کوئی نئی بات نئی ہے لیکن حالات لگاتار خراب ہوتے جا رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا مشہور و معروف صحافی رعنا ایوب

جب میں دہلی میں رعنا ایوب سے ملی تو وہ بہت پریشان تھیں۔ وہ آؤٹ لُک سوشل میڈیا یوتھ آئیکن آف دی ائیر ایوارڈ لینے دہلی آئی تھیں۔ 2002 کے گجرات فسادات کی گہری پڑتال کرنے والی کتاب گجرات فائلس کی مصنفہ رعنا ایوب ہماری بات چیت کے دوران ٹرولنگ بریگیڈ کے اثر سے خود کو لگاتار سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ لیکن ایسا کرنا ان کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔ لگاتار ان کی انگلیاں موبائل پر اوپر-نیچے جا رہی تھیں اور وہ بدبدا رہی تھیں ’’وہ ایسا کیسے کر سکتے تھے، کیسے، اتنے گرے ہوئے، اتنے نقلی۔ وہ ہمیں صرف پریشان کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ بے وقوف ہیں۔ ہم اپنا کام کرتے رہیں گے، ہم کرتے رہیں گے...۔‘‘

ان کی یہ باتیں چلتی رہیں... میں نے ان کو پہلے بھی مشکل حالات میں دیکھا ہے لیکن اس بار معاملہ کچھ الگ تھا۔ چھیڑ چھاڑ والے ویڈیو کی وجہ سے انھیں بہت پریشانی اٹھانی پڑی۔ یقیناً ہی یہ بربادی کا نیا ہتھیار تھا جس کا ٹرولس نے استعمال کیا ہے۔ رعنا کہتی ہیں ’’وہ کردار کشی کرنے کے معاملے میں استاد ہیں۔ وہ ہمارے جوش سے نہیں لڑ سکتے، صرف اتنا نیچے گر کر حملہ کر سکتے ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ یہ کہنا آسان ہے کہ ہمیں منفی طور پر اس سے متاثر نہیں ہونا چاہیے، لیکن اس سے تکلیف ہوتی ہے اور بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ کئی تعمیری ایام کا اس سے نقصان ہوتا ہے۔‘‘

Published: undefined

آج عالمی یومِ آزادیٔ پریس ہے اور صحافی آج جس قسم کی دھمکیاں اور ذہنی و جسمانی تکلیف برداشت کر رہے ہیں اس پر مذاکرہ بہت ضروری ہے۔ رعنا ایوب اور رویش کمار کی ٹرولنگ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن یہ بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ان پر ہو رہے حملے سخت ہوتے جا رہے ہیں اور یہ ان کے ذہنی صحت اور فیملی پر اثر ڈال رہے ہیں۔

میں نے قصداً ان چیزوں کو شیئر کیا ہے تاکہ لوگ سمجھ سکیں کہ کس طرح کی تکلیف سے ’فیک نیوز‘ اور چھیڑ چھاڑ والے ویڈیو کے متاثرین گزرتے ہیں۔ جرائم پیشہ اور قاتلوں جیسی یہ ٹرول فوجیں امن وامان کو ختم کرنے کے لیے سیاسی طور پر تربیت یافتہ ہیں۔ ماں-بہن کی گالیاں اور عصمت دری کی دھمکیاں تو اب عام ہو چکی ہیں۔ اجتماعی عصمت دری، اعضائے مخصوصہ میں راڈ ڈال دینے جیسی دھمکیاں ٹرول بریگیڈ کھلے عام دے رہی ہیں۔ اب انھوں نے چھیڑ چھاڑ کر بنائے گئے پورن ویڈیو کو ٹوئٹر پر نئے ہتھیار کی طرح استعمال کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ لاکھوں لوگوں تک یہ منٹوں میں پہنچ جائے۔ ٹرول فوجوں کو پورا سیاسی-انتظامی تحفظ حاصل ہے۔ ان کی سیاسی سمجھداری صاف ہے اور ان کی حمایت کے لیے پورا انتظام ہے۔ اس لیے کسی کو سزا نہیں مل رہی ہے۔ کوئی سنگین جانچ نہیں ہو رہی ہے، کوئی جیل میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرول فوجیں کھل کر لوگوں کی آزادی اور وقار پر سخت حملے کر رہی ہیں۔ اور رعنا ایوب جیسے لوگ ان کے نشانے پر ہیں۔ رعنا بے خوف ہیں، آر ایس ایس مخالف ہیں، مسلم ہیں اور آزاد ہیں۔ یہ طے ہے کہ رعنا ایوب پر ہونے والے حملے ابھی مزید سخت ہوں گے۔ رعنا پھر سے سامنے آ چکی ہیں۔ انھوں نے گھانا سے ٹوئٹ کیا کہ ’’کئی قومی اور بین الاقوامی حقوق انسانی، صحافتی گروپوں نے مجھے اپنے پاؤں واپس کھڑے ہونے میں مدد کی۔‘‘

Published: undefined

رعنا کو پی سی آئی، آئی ڈبلیو پی سی، آئی ڈبلیو ایم ایف، پی ای این، آئی ایف جے، این ڈبلیو آئی ایم، ڈی یو جے جیسی قومی اور بین الاقوامی میڈیا تنظیموں سے حمایت ملی۔ لیکن ٹرولنگ فوج اتنا نیچے گر کر حملہ کریں گی، یہ رعنا ایوب، شہلا راشد جیسے صحافیوں اور انقلابیوں نے نہیں سوچا تھا۔ کچھ حد تک انھیں دھچکا سا لگا۔ رعنا دماغی طور پر کافی غیر مستحکم تھیں اور ٹرول بریگیڈ نے اسی پر نشانہ لگایا۔ رعنا نے ہمت دکھائی۔ وہ، اور چیلنج بھرے مقدمے لڑنے والی ان کی وکیل ورندا گروور نے دہلی کے ساکیت پولس تھانہ میں مجرمانہ شکایت درج کرائی۔ یہ مجرمانہ شکایت تعزیرات ہند اور آئی ٹی ایکٹ کی دفعات کے تحت چھیڑ چھاڑ والے ویڈیو، تصویر اور فیک ٹوئٹ کے رد عمل میں درج کیے گئے ہیں۔ رعنا نے ایسا اس خطرے کے ساتھ کیا کہ اس کے بعد ساری چیزیں پبلک ڈومین میں آ جائیں گی۔ اس معاملے پر ورندا گروور نے کہا کہ جو لوگ سچ کہنے کی ہمت کر رہے ہیں ان پر حملے کیے جا رہے ہیں تاکہ انھیں خاموش کرایا جا سکے۔ کئی لوگ پولس میں شکایت درج نہیں کرانا چاہتے کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ ایسا کرنے سے ہتک عزتی والی چیزیں زیادہ شائع ہوں گی۔ وہ مزید بوجھ نہیں لینا چاہتے اور اپنا تناؤ نہیں بڑھانا چاہتے۔ اس لیے ملزمین کے لیے حملہ کرنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔

یہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے۔ یہ لگاتار چل رہا ہے جو ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بھی جھلکتا ہے جس میں ہندوستان دو پائیدان نیچے گر کر 180 ممالک میں 138ویں مقام پر آ گیا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined