خبریں

ماؤ نواز باغیوں کے نام پر عام لوگوں کو قتل کیا گیا

ایک عدالتی تفتیشی رپورٹ سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ چند برس قبل سکیورٹی فورسز نے، جن سترہ افراد کو ہلاک کر کے ماؤ نواز باغی قرار دیا تھا، وہ مقامی گاؤں کے عام شہری تھے۔

سوشل میڈیا علامتی تصویر
سوشل میڈیا علامتی تصویر 

ریاستی ہائی کورٹ کے ایک جج کی زیر نگرانی ہونے والی تفتیشی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان ہلاکتوں سے متعلق سکیورٹی فورسز کے دعوے حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ یہ واقعہ اٹھائیس جون دو ہزار بارہ کی شب کا ہے، جب ریاست چھتیس گڑھ کی پولیس اور سی آر پی ایف (سینٹرل ریزرو پولیس فورسز) نے ضلع بیجا پور کے سرکیگوڑا گاؤں میں سترہ ماؤ نواز باغیوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں چھ نابالغ بھی شامل تھے۔

Published: undefined

سکیورٹی فورسز کا کہنا تھا کہ گاؤں والوں نے ان پر فائرنگ کی تھی اور سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں سترہ لوگ مارے گئے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے زبردست ہنگاموں کے بعد حکومت نے ریاست مدھیہ پردیش کی ہائی کورٹ کے جج سے اس کی تفتیش کرنے کا کہا تھا۔ جسٹس وی کے اگروال کی سربراہی والے کمیشن نے اپنی تفتیشی رپورٹ اکتوبر میں سونپ دی تھی، جسے دو دسمبر کو بحث کے لیے ریاستی اسمبلی میں پیش کیا گیا اور اب اسے محکمہ قانون کے حوالے کیا گیا ہے۔

Published: undefined

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گاؤں والوں کی جانب سے نہ ہی کوئی فائرنگ کی گئی تھی اور نہ ہی تصادم ہوا تھا بلکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے صاف واضح ہے کہ فورسز نے وہاں موجود ہجوم پر بہت قریب سے گولیاں چلائیں اور اس بات کے بھی کوئی شواہد نہیں ہیں کہ وہاں پر ماؤ نواز باغی تھے۔ سکیورٹی فورسز کے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا گیا ہے کہ اس مبینہ جھڑپ میں چھ سکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے تھے ۔

Published: undefined

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ رات کے تقریبا دس بجے آئندہ روز ہونے والے مقامی تہوار ’بیج پنڈم‘ کی تیاریوں کے سلسلے میں جمع ہوئے تھے اور سکیورٹی فورسز نے ان کا محاصرہ کر کے فائرنگ شروع کر دی۔

Published: undefined

اس کیس سے وابستہ انسانی حقوق کی خاتون وکیل ایشا کھنڈیلوال کا کہنا ہے کہ ماؤ نوازوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کی طویل تاریخ میں تفتیش کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ تفتیش کے دوران ان کی ٹیم پر بہت دباؤ تھا لیکن اس کے نتائج بہتر ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارا مطالبہ ہے کہ اب قصور واروں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے، انہیں گرفتار کیا جائے، اس کی دوبارہ تفتیش ہو، ان کے خلاف مقدمہ چلے اور انھیں سزا ہو۔ متاثرین کے اہل خانہ کو دس سے پندرہ لاکھ تک روپے بطور ازالہ ادا کیے جائیں۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’تفتیشی رپورٹ میں تو گاؤں والوں کے موقف کی جیت ہوئی ہے تاہم انصاف اس وقت نہیں ہو سکتا جب تک قصور واروں کو اس کی سزا نہ ملے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں مستقبل کی حکمت عملی متاثرہ گاؤں کے لوگ طے کریں گے اور وہ اس سلسلے میں جلد ہی گاؤں والوں کے ساتھ ایک میٹنگ کرنے والی ہیں۔

Published: undefined

بھارت کی متعدد ریاستوں میں آئے دن سکیورٹی فورسز اور ماؤ نواز باغیوں کے درمیان جھڑپوں اور ہلاکتوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined