خبریں

ترکی کے شام پر حملہ کی وجہ اور کردوں کی تاریخ

ترکی کے شام پر حملہ کے درمیان کرد فورسز نے ترک حملے کا مقابلہ کرنے کے لئے شام کی حکومتی فورسز سے ڈیل کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کرد کون ہیں اور ترکی نے شام میں کرد فورسز کے خلاف عسکری کارروائی کیوں شروع کی؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

شامی کرد فورسز ترک فوج کی عسکری پیش قدمی کو روکنے کی کوشش میں ہیں۔ ترک سرحد کے قریب ترکی کی فوج کی عسکری کارروائی اور شامی کردوں کی مسلح مزاحمت جاری ہے۔ اس لڑائی کی وجہ سے اس پورے خطے کے مستقبل کے حوالے سے بھی کئی طرح کے سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔

Published: undefined

امریکی فورسز کے شمالی شامی علاقوں سے انخلا کے بعد ترکی نے کردوں کے خلاف عسکری کارروائی کا آغاز کر دیا تھا۔ اس سے قبل شمالی شام میں کرد فورسز کو امریکی حمایت حاصل تھی۔ کرد فورسز ہی نے شمالی شامی علاقوں میں دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کو شکست دی تھی۔ دوسری جانب ترک حکومت کا کہنا ہے کہ وہ خطے میں ایک 'محفوظ علاقہ‘ قائم کرنا چاہتی ہے، تاکہ ترکی میں موجود شامی مہاجرین کو دوبارہ وطن واپس بھیجا جا سکے۔

Published: undefined

ترکی، شام، عراق اور ایران میں کرد اقلیت بستی ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے خودمختاری کے لیے کوشاں رہی ہے۔

Published: undefined

کردوں کی تاریخ

Published: undefined

کرد نسلی طور پر زیادہ تر سنی آبادی پر مشتمل ہیں اور ان کی زبان فارسی کے انتہائی قریب ہے، جب کہ کرد آرمینیا، عراق، ایران، شام اور ترکی کے سرحدی پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں۔

Published: undefined

کرد قوم پرست تحریک کا آغاز سن 1890 میں سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے برسوں میں ہوا تھا۔ پہلی عالمی جنگ میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد سیورے کے معاہدے میں کردوں سے آزادی کا وعدہ کیا تھا۔ بعد میں ترک رہنما کمال اتاترک نے یہ معاہدہ توڑ دیا جب کہ سن 1924 کے لوزان کے معاہدے میں کردوں کے علاقوں کو مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں شامل کر دیا گیا تھا۔

Published: undefined

شام، عراق، ایران اور ترکی میں کرد

Published: undefined

شام میں سن 2011 میں حکومت مخالف تحریک کے آغاز کے وقت کرد شام کی مجموعی آبادی کا آٹھ سے دس فیصد تھے۔ شام میں کردوں کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی جب کہ ہزاروں کرد باشندوں کو شہری حقوق بھی دستیاب نہیں تھے۔ شام میں خانہ جنگی کے دور میں بشارالاسد کی حامی فورسز کی کارروائیاں زیادہ تر سنی عرب جنگجوؤں کے خلاف رہیں اور اس دوران شمالی شام میں کردوں نے خود ساختہ انتظام قائم کر لیا۔ اسد حکومت ان علاقوں پر دوبارہ قبضے کے عزم کا اظہار کرتی رہی ہے، تاہم دمشق حکومت اور کردوں کے درمیان بات چیت بھی جاری رہی۔ شامی کرد رہنما شمالی شام کی تقسیم نہیں چاہتے، تاہم وہ شام ہی کا حصہ رہتے ہوئے زیادہ علاقائی خودمختاری کے خواہاں ہیں۔

Published: undefined

دہشت گرد گروہ اسلامک اسٹیٹ کی شکست میں کرد عسکری گروہ وائی پی جی نے امریکی حمایت اور تربیت کے ساتھ اہم کردار ادا کیا اور اس دوران اس کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف لڑائی میں کردوں کو سب سے بڑا فاتح قرار دیا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں وہاں تیل، پانی اور زرخیز زمین کے علاوہ کرد فورسز کی موجودگی میں کردوں نے ایک طرح سے اپنی خودمختار حکومت قائم کر رکھی ہے۔

Published: undefined

امریکی فورسز کے خطے سے انخلا اور کردوں کی جانب سے شامی فورسز کو ترکی سے تحفظ کے لیے مدعو کرنے نے اس خطے کے مستقبل پر کئی طرح کے سوالات لگا دیے ہیں۔

Published: undefined

ترکی میں کرد مجموعی آبادی کا بیس فیصد کے قریب ہیں۔ ترکی میں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سن 1984 سے ترکی کے جنوب مشرقی حصے کی خودمختاری کے لیے مسلح جدوجہد شروع کیے ہوئے ہے، جب کہ اس مسلح تنازعے میں مجموعی طور پر چالیس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

Published: undefined

کردستان ورکرز پارٹی کے رہنما عبدللہ اوچلان کو سن 1999 میں گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں سزائے موت سنا دی گئی تھی، بعد میں ترکی میں سزائے موت پر پابندی لگ جانے کے تناظر میں ان کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا گیا تھا۔ سن 2012 میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور کرد رہنما اوچلان کے درمیان مذاکرات ہوئے، تاہم ان مذاکرات کی ناکامی کی وجہ سے یہ تنازعہ دوبارہ شدت پکڑ گیا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ترکی کے علاوہ امریکا اور یورپی یونین بھی کردستان ورکرز پارٹی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

Published: undefined

اس تنظیم کے ارکان کے خلاف ترکی نہ صرف ملک کے اندر عسکری کارروائیاں کرتا رہا ہے بلکہ شمالی عراق کے پہاڑی علاقوں میں بھی ترک طیارے بمباری کرتے رہے ہیں۔

Published: undefined

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا کہنا ہے کہ شمالی شام میں متحرک وائی پی جی نامی کرد عسکری گروہ کردستان ورکرز پارٹی ہی کی شاخ ہے اور اس تنظیم کو کم زور کرنے کے لیے ترکی نے شمالی شام میں اپنی فوج بھیجی ہے۔

Published: undefined

عراق میں کردوں کی تعداد مجموعی ملکی آبادی کا پندرہ سے بیس فیصد جب کہ ایران میں دس فیصد ہے۔ عراق میں صدام حسین کے دورِ حکومت میں کئی مرتبہ کردوں کے خلاف حملے کیے گئے بلکہ 80 کی دہائی میں تو کردوں کے دیہات پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال تک ہوا۔ سن 1991 سے تاہم شمالی عراق میں کرد اکثریتی علاقے نیم خودمختار حیثیت کے حامل ہیں۔ ایران میں کردستان ورکرز پارٹی کی ایک شاخ سمجھی جانے والی فری لائف آف کردستان کے خلاف بھی فورسز عسکری آپریشن کر چکی ہیں، جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایران میں کردوں کو معاشرتی تفریق کا سامنا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined