خبریں

سقوط ڈھاکہ کو کیسے یاد کیا جارہا ہے ؟

سولہ دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں پاکستانی فوج کے مشرقی بازو کے کمانڈر جنرل نیازی نے بھارتی فوج کے کمانڈر کے سامنے ہتھیار ڈالے اور پاکستان کے دو حصے ہوگئے۔

سقوط ڈھاکہ کو کیسے یاد کیا جارہا ہے ؟
سقوط ڈھاکہ کو کیسے یاد کیا جارہا ہے ؟ 

پاکستان نے بھارت پر بنگلہ دیش کی علیحدگی کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا اور بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ نو ماہ تک جاری رہنے والی بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران اس وقت کے مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستانی فوجیوں نے بنگلہ دیشی عوام پر جو ظلم و ستم ڈھائے تھے، اس کے لیے سرکاری طور پر معذرت کی جائے۔

Published: undefined

ڈھاکہ حکومت الزام عائد کرتی ہے کہ ان نو مہینوں کے دوران پاکستانی فوجیوں نےمقامی حامیوں کے ساتھ مل کر قریب تین ملین افراد کو ہلاک کیا، دو لاکھ خواتین کی آبروریزی کی جبکہ لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا۔ اسلام آباد حکومت بنگلہ دیشی حکومت کی طرف سے پیش کردہ ان اعدادوشمار پر اختلاف رکھتی ہے۔

Published: undefined

آج 48 سال بعد پاکستان کے دو ٹُکڑے ہو جانے کے واقعہ کو مختلف انداز میں یاد کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے ریٹائرڈ فوجی افسر ایئر مارشل شاہد لطیف نے ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا،'' سولہ دسمبر 1971ء کو ہمیشہ ایک سیاہ دن کے طور پر یاد کیا جائے گا جب کچھ افراد کے سیاسی مفادات کی وجہ سے عوامی رائے کو نظر انداز کیا گیا تھا۔‘‘

Published: undefined

ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا،'' پاکستان کو صرف فوجی ناکامی نہیں بلکہ سفارتی، سیاسی اور مواصلاتی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔‘‘

Published: undefined

سوشل میڈیا پر جنرل نیازی کی وہ تصویر بھی شیئر کی جارہی ہے جس میں بظاہر پاکستانی فوج نے 1971ء کی جنگ میں شکست قبول کر لی تھی۔ کئی اخبارات میں مختلف تجزیہ کاروں نے اس تاریخی واقعہ پر اپنی رائے کا بھی اظہار کیا ہے۔

Published: undefined

پاکستانی سینئر صحافی محمد ضیاءالدین نے آن لائن ویب سائٹ 'نیا دور‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ،'' پاکستان کو بنگلہ دیش کے ساتھ غلط رویہ اپنانے پر معافی مانگ لینا چاہیے۔ معافی نہ مانگنے کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات میں غیر ضروری طور پر ہمارے تعلقات متاثر ہو رہے ہیں‘‘۔

Published: undefined

اسی طرح نوائے وقت میں ڈاکٹر احمد سلیم نے لکھا،''اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ سقوط ڈھاکہ میں بھارت کا بڑا کردار تھا اور بھارتی قیادت کو آج بھی پاکستان کا وجود گوارا نہیں ہے لیکن بھارت کے خلاف واویلا کرنے سے زیادہ اہم ہے کہ ہم حمود الرحمٰن کمیشن کی رپوٹ سامنے لانے کا مطالبہ بھی کریں اور ساتھ ہی 1948ء سے 1971ء کے درمیان ہونے والی اپنی سیاسی اور فوجی غلطیوں کا سنجیدہ اور تفصیلی مطالعہ کریں اور ان سے سبق حاصل کریں۔‘‘

Published: undefined

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے ان بنگالیوں کے خلاف ایک خصوصی عدالتی ٹریبیونل قائم کیا تھا، جو1971ء کی جنگ کے دوران مغربی پاکستانی فوجیوں کی مدد کرنے کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اب تک کئی ایسے کئی افراد کو پھانسی کی سزائین دی جا چکی ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined