خبریں

کورونا وائرس: لاشوں کی تعداد کتنی ہو تو ہم پھر بھی برداشت کر لیں گے؟ تبصرہ

انسانی ہلاکتوں کی تعداد کا مقابلہ اقتصادی ترقی سے ہے۔ سبھی دیکھنے اور سننے والے بے یقینی سے پوچھنے لگے ہیں کہ ایسا بھلا ہو کیسے سکتا ہے؟

کورونا وائرس: لاشوں کی تعداد کتنی ہو تو ہم پھر بھی برداشت کر لیں گے؟ تبصرہ
کورونا وائرس: لاشوں کی تعداد کتنی ہو تو ہم پھر بھی برداشت کر لیں گے؟ تبصرہ 

ابھی بمشکل دو ہفتے ہی تو ہوئے ہیں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے زندگی تقریباﹰ جمود کا شکار ہو گئی۔ کچھ لوگ اپنے اندازے اور اعداد و شمار ہاتھوں میں لیے ابھی سے یہ حساب کتاب کرنے لگے ہیں کہ انسانی ہلاکتوں اور اقتصادی ترقی کو پہنچنے والے نقصان میں سے بڑا نقصان کون سا ہو گا۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار ہینریک بوئہمے لکھتے ہیں کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں حیرت سے کھلی ہیں اور سننے والوں کو یقین نہیں آ رہا کہ وہ سن کیا رہے ہیں اور یہ ہو کیا رہا ہے؟

Published: undefined

جو سوال پوچھا جا رہا ہے، اس کے پیچھے سوچ ایک ہی ہے: یہ کہ ہمارے لیے زیادہ اہم کیا ہے؟ عام انسانوں میں سے ہر ایک کی صحت اور سلامتی یا کسی تباہ کن اقتصادی بحران سے تحفظ؟ یہ وائرس نظر نہ آنے والا ایسا دشمن ہے، جو بہت خطرناک بھی ہے اور جس سے لوگ بہت خائف بھی ہیں۔ اس کا نتیجہ: عام لوگوں کے باہمی رابطے منقطع، گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی، عوامی زندگی جمود کا شکار اور اقتصادی کارکردگی مفلوج۔

Published: undefined

بڑی بڑی رقوم

Published: undefined

کسی بہت بڑے مالیاتی بحران کے پیش نظر ہوش ربا حد تک زیادہ رقوم کی باتیں کی جانے لگی ہیں۔ امریکا میں دو ٹریلین ڈالر کا اقتصادی پیکج، یورپی مرکزی بینک کی طرف سے ساڑھے سات سو بلین یورو اور جرمن حکومت کی طرف سے چھ سو بلین یورو مالیت کے اقتصادی پیکج کا اعلان۔ یہ جملہ رقوم ادا کون کرے گا؟

Published: undefined

اگر یہ نئے قرضے لے کر مہیا کی جائیں گی، تو متعلقہ ممالک شدید حد تک نئے قرضوں کے بوجھ تلے دب جائیں گے۔ اگر حکومتیں یہ وسائل بچت کر کے مہیا کریں گی، تو نقصان پھر عوام کا ہی ہو گا۔ سماجی تحفظ، صحت، تعلیم اور سرمایہ کاری جیسے شعبوں میں سرکاری اخراجات میں بچت کی وجہ سے۔

Published: undefined

لیکن یہ بات کسی نے نہیں سوچی ہو گی کہ برطانوی طبی ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق، دو ہزار آٹھ سے دو ہزار دس تک کے مالیاتی بحران کے نتیجے میں پانچ لاکھ سے زائد مریض صرف کینسر کا علاج نہ ہونے کی وجہ سے مر گئے تھے۔ تب حکومتوں نے طبی شعبے کے لیے رقوم واضح طور پر کم کر دی تھیں اور بہت سے کارکن ملازمتیں اور کوئی جاب انشورنس نہ ہونے کی وجہ سے بالکل ہی بے یار و مددگار ہو گئے تھے اور ان کا علاج نہ ہو سکا تھا۔

Published: undefined

بہت سخت الفاظ اور کڑوا سچ

Published: undefined

اب یہ بحث شروع کی جا رہی ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد کس حد تک رہے تو ہم اسے پھر بھی برداشت کر لیں گے؟ یہ سوال یوں پوچھا جانا چاہیے: کسی ایک انسانی جان کی قیمت کیا ہے؟ ایسی باتیں کرنے والوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ ہلاکتیں صرف کورونا وائرس کی وجہ سے نہیں ہو ں گی۔ طبی شعبے پر دباؤ بہت بڑھے گا، جیسا کہ اٹلی میں بھی ہوا، تو ہسپتالوں کی مجموعی کارکردگی متاثر ہو گی اور لوگ سرطان، امراض قلب اور دیگر بیماریوں سے بھی زیادہ تعداد میں مرنے لگیں گے۔

Published: undefined

کورونا کی وبا کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کے مقابلے میں اقتصادی ترقی کا ذکر کرنے والوں کو شاید علم نہ ہو کہ لندن کے امپیریل کالج کے تیار کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف امریکا ہی میں اس وائرس کی وجہ سے ایک ملین سے زائد ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔

Published: undefined

دوسری طرف ایسے لوگوں کو شاید یہ علم بھی نہ ہو کہ فرانس کے شہر میوہل ہاؤزن میں جو لڑکا لاشوں کو تھیلوں میں بند کر کے ٹرانسپورٹ کر رہا تھا، وہ طب کا ایک بیس سالہ طالب علم تھا۔

Published: undefined

لاتعداد متاثرین

Published: undefined

ہر طرف نظر آنے والا جمود اور اقتصادی تعطل ظاہر ہے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ گلی کے کونے پر چھوٹی سی دکان سے لے کر حجام کے سیلون تک، ہوٹلوں سے لے کر کیٹرنگ تک اور بڑے بڑے صنعتی پیداواری اداروں سے لے کر فضائی کمپنیوں تک، ہر کوئی متاثر ہوا ہے۔ لفتھانزا کے تقریباﹰ سبھی مسافر طیارے زمین پر ہیں، فوکس ویگن کی فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں۔ کورونا وائرس یوں ہمارے معاشروں، سماجی نظاموں اور آزادیوں کو کھا جانے پر اتر آیا ہے۔

Published: undefined

ہمیں موجودہ مرحلے میں اس وبا کے خلاف ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ہم جن معاشروں میں رہتے ہیں، وہ خود پسند اور انا پرست معاشرے ہیں۔ انہی معاشروں میں کورونا وائرس نے اپنی تمام تر تباہی کے باوجود سماجی یکجہتی کے جس ننھے سے پودے کو جنم دیا ہے، اس پودے کی حفاظت لازمی ہے۔ اس سماجی یکجہتی کا تحفظ ہی کورونا کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار ہو سکتا ہے: انسانوں کا متحد ہونا اور ایک دوسرے کا خیال رکھنا۔ جہاں تک معیشت کا سوال ہے، تو اسے ہم دوبارہ سدھار لیں گے۔ ایسا ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined