خبریں

ایران میں درآمدی بجٹ کے لیے مختص رقوم میں سے پانچ ارب ڈالر غائب

امریکی پابندیوں اور کورونا وائرس کی وبا کے باعث پہلے ہی سے مالی وسائل کی کمی کے شکار ملک ایران میں درآمدی بجٹ کے لیے مختص کردہ رقوم میں سے تقریباﹰ پانچ ارب ڈالر غائب ہو گئے ہیں۔

ایران میں درآمدی بجٹ کے لیے مختص رقوم میں سے پانچ ارب ڈالر غائب
ایران میں درآمدی بجٹ کے لیے مختص رقوم میں سے پانچ ارب ڈالر غائب 

حال ہی میں منظر عام پر آنے والا یہ معاملہ ایرانی ٹیکس دہندگان کو بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔ ایران میں سرکاری رقوم کے استعمال کا آڈٹ کرنے والے اعلیٰ ترین ملکی ادارے 'دیوان محاسبات کشور‘ یا سپریم آڈٹ کورٹ (ایس اے سی) کے سربراہ عادل آذر نے چودہ اپریل کو عوامی سطح پر یہ اعلان کیا تھا کہ حکومت کی طرف سے مختص کردہ ملکی درآمدی بجٹ میں سے تقریباﹰ پانچ ارب ڈالر غائب ہو گئے ہیں۔ اس بارے میں عادل آذر کی طرف سے ایک باقاعدہ رپورٹ اب ملکی دفتر استغاثہ کو بھی بھجوائی جا چکی ہے۔

Published: undefined

سپریم آڈٹ کورٹ کی اس رپورٹ کے مطابق تہران حکومت نے گزشتہ برس مارچ سے لے کر اس سال مارچ تک کے ایک سال کے عرصے کے دوران درآمدات کی مد میں 31.4 ارب ڈالر کا بجٹ مختص کیا تھا۔ اس دوران لیکن جتنی بھی مصنوعات درآمد کی گئیں، ان کی مالیت 26.6 ارب ڈالر رہی جبکہ باقی ماندہ 4.8 ارب ڈالر کا کوئی علم نہیں کہ وہ کہاں گئے۔ اس ادارے کو ان تقریباﹰ پانچ بلین ڈالر کے ممکنہ استعمال سے متعلق کوئی دستاویزی ریکارڈ یا شواہد بھی نہ مل سکے۔

Published: undefined

صدر حسن روحانی کا ردعمل

Published: undefined

'دیوان محاسبات کشور‘ کے سربراہ کا موقف منظر عام پر آنے کے ایک روز بعد ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے ردعمل میں کہا تھا، ''کچھ بھی غائب نہیں ہوا۔ حکومت کے پاس ایسی کاروباری شخصیات کی ایک فہرست موجود ہے، جنہوں نے درآمدات کے لیے حکومت سے سبسڈی کے ساتھ زر مبادلہ کے طور پر ڈالر حاصل کیے تھے۔‘‘

Published: undefined

ساتھ ہی صدر روحانی نے عادل آذر پر غلط فہمیاں پیدا کرنے والی معلومات پھیلانے کا الزام بھی لگایا تھا۔ ایرانی صدر نے زور دے کر کہا تھا کہ اربوں کی یہ رقوم غائب نہیں ہوئیں اور ماضی کی طرح حکومت کو درآمد کنندگان پر اب بھی پورا اعتماد ہے۔

ساتھ ہی صدر روحانی نے یہ بھی کہا تھا کہ ایسے کاروباری افراد جنہوں نے ایک سال کے مذکورہ عرصے کے دوران ایران میں کوئی مصنوعات درآمد نہیں کیں، انہیں سپریم آڈٹ کورٹ سے رابطہ کرنا چاہیے تاکہ یہ وضاحت کی جا سکے کہ انہوں نے انہیں دیا گیا زر مبادلہ کہاں خرچ کیا۔

Published: undefined

عدلیہ غیر مطمئن

Published: undefined

ایرانی عدلیہ کے لیے صدر روحانی کا یہ وضاحتی موقف تسلی بخش ثابت نہیں ہوا تھا۔ ملکی دفتر استغاثہ کے اعلیٰ اہلکار علی الغازی نے رواں ہفتے کے آغاز پر ستائیس اپریل کو یہ اعلان بھی کر دیا کہ ان کا ادارہ ایرانی مرکزی بینک کے 25 اہلکاروں کے خلاف اپنی چھان بین جاری رکھے ہوئے ہے، جن میں چند انتہائی سرکردہ عہدیدار بھی شامل ہیں۔

Published: undefined

دو درجن سے زائد یہ تمام اہلکار ایرانی مرکزی بینک کے وہی عہدیدار تھے، جنہوں نے حکومت کے منظور شدہ ایرانی درآمد کنندگان کو زر مبادلہ کی صورت میں ایسی رقوم کی ادائیگی کی منظوری دی تھی۔

Published: undefined

دوہری شر‌ح تبادلہ

Published: undefined

ماہرین کے مطابق ان واقعات کے خود ایرانی حکام کے مطابق بھی ناقابل فہم ہونے کی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ ایران میں زر مبادلہ کی شرح کا نظام بہت پیچیدہ ہے۔ حکومت قومی بجٹ کے لیے تقریباﹰ چالیس فیصد تک مالی وسائل زر مبادلہ کی صورت میں ہونے والی اس آمدنی سے مہیا کرتی ہے، جو اکثر امریکی ڈالر میں کی جاتی ہے۔ وہ اس آمدنی کو ملکی منڈی میں ڈالر سے ایرانی ریال میں تبدیل کراتی ہے اور یوں ریاستی ڈھانچے کو فعال رکھنے کے لیے وسائل تقسیم کیے جاتے ہیں۔

Published: undefined

ایران میں زر مبادلہ کی شرح دو طرح کی ہوتی ہے: ایک سرکاری جس کے لیے ریاست سبسڈی دیتی ہے اور جو بہت سستی ہوتی ہے۔ اس شرح کے مطابق ایک ڈالر تقریباﹰ بیالیس ہزار ریال کے برابر بنتا ہے۔ یہ سہولت صرف ایسے گنے چنے افراد یا اداروں کو ہی حاصل ہوتی ہے، جنہیں حکومت کی طرف سے ادویات اور خام صنعتی مال کی درآمد کی اجازت دی گئی ہوتی ہے۔

Published: undefined

دوسری شرح تبادلہ کھلی منڈی میں غیر ملکی کرنسی کا وہ مقامی کاروبار ہے، جہاں عام لوگ مالیاتی لین دین کرتے ہیں اور جو بہت مہنگی ہوتی ہے۔ اس اوپن مارکیٹ میں صارفین کو ایک امریکی ڈالر کے لیے تین گنا سے بھی زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور ایک ڈالر تقریباﹰ ایک لاکھ پچپن ہزار ریال میں فروخت کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

'غائب ہو جانے والے‘ اربوں ڈالر کن کو دیے گئے؟

Published: undefined

یہ بات اب تک واضح ہو چکی ہے کہ جن تقریباﹰ پانچ بلین ڈالر کے غائب ہو جانے کا حکام دعویٰ کر رہے ہیں، وہ ایسے درآمد کنندگان کو دیے گئے تھے، جنہیں کم قیمت پر زر مبادلہ فروخت کیا جاتا ہے۔ یہ افراد ایران کے موجودہ سیاسی نظام کے مخلص حامی سمجھے جاتے ہیں اور ان کا شمار آپس میں بہت ہی مربوط کاروباری حلقوں میں ہوتا ہے۔

Published: undefined

یہی وہ کاروباری افراد اور ادارے ہیں، جنہیں صدر حسن روحانی نے 'اہم کاروباری شخصیات‘ قرار دیا تھا۔ حکومتی حلقوں میں ان کے بہت اہم سمجھے جانے کی وجوہات میں یہ بھی شامل ہے کہ یہی عناصر ایران کے امریکی پابندیوں کے اثرات سے بچ نکلنے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined