خبریں

چیف جسٹس کا بیان، ملک میں نئی بحث کا سبب

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بیان پر پاکستان کے کئی حلقوں میں بحث چھڑ گئی ہے۔ کچھ ناقدین اس بیان کو عدالت کی سست روی اور متنازعہ فیصلوں کا دفاع قرار دے رہے ہیں تو چند ايک اسے حقیقت پر مبنی قرار دیتے ہیں

چیف جسٹس کا بیان، ملک میں نئی بحث کا سبب
چیف جسٹس کا بیان، ملک میں نئی بحث کا سبب 

پاکستان کی طاقت ور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے حامی اور مخالفين، ان دنوں دونوں ہی مختلف زاویوں سے عدالتوں اور عدالتی نظام کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پاکستان مسلم لیگ ن کے حمايتی پانامہ اور دیگر مقدمات کی وجہ سے عدالتی نظام پر تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں تو پی ٹی آئی کے حامی نواز شریف کو دی گئی ضمانت پر عدالتی نظام پر جملے کس رہے ہیں۔ ان حالات میں کچھ سیاست دان اس انتظار میں ہیں کہ ان کی پارٹی کو انصاف کب ملے گا۔

Published: undefined

آصف سعید کھوسہ کے بیان پر محتاط رد عمل دیتے ہوئے پاکستان پيپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''چیف جسٹس نے اگر کہا ہے کہ عدلیہ غیر جانبدار اور آزاد ہے، تو ایسا ہوگا لیکن پی پی پی کو تو عدالتوں سے انصاف نہیں ملا۔ ہم نے زیڈ اے بھٹو کے مقدمے کے حوالے سے درخواست دائر کرائی ہے، جس کو فاروق نائیک اور لطیف کھوسہ صاحب دیکھ رہے ہیں لیکن اس کی ابھی تک سماعت نہیں ہوئی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب اس کی فوری سماعت کریں گے اور ہمیں بھی انصاف ملے گا۔‘‘

Published: undefined

وکلا برادری سے وابستہ کچھ افراد اس بیان پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد نے اس مسئلے پر سخت موقف اپنایا ہوا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''چیف جسٹس صاحب نے جو بیان دیا، وہ دفاعی تھا۔ عدالتوں میں مقدمات پر کارروائی کی سست روی کی وجہ سے لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد کم ہو رہا ہے لیکن دفاع کے لیے چيف جسٹس نے جو حوالہ دیا کہ دو سابق وزير اعظموں کو نکالا یا نا اہل قرار دیا گيا، یہ کوئی قابل فکر مقدمات نہیں بلکہ ان مقدمات پر کئی سوالات ہیں۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف کے مقدمے میں جے آئی ٹی کی رپورٹ نیب کو بھجوائی اور نیب نے اسی پر فیصلہ دے دیا۔ نواز شریف کو سزا نہیں دی گئی بلکہ نواز شریف کو سبق سکھایا گیا ہے، جو صرف نواز شریف کے ليے ہی نہیں ہے بلکہ دوسرے لوگوں کے ليے بھی ہے۔‘‘

Published: undefined

ان کا مزيد کہنا تھا کہ اسی طرح جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدر نے ریفرنس طاقت ور حلقوں کے کہنے پر بھجوایا۔ اس مقدمے کو بھی مثالی نہیں کہا جا سکتا۔ ''جہاں تک ماڈل کورٹس کی بات ہے وہ بھی کوئی مثالی نہیں ہیں اور وکلا کو اس پر تحفظات ہیں۔ قتل، اغواء اور ڈکیتی کے مقدمات پر وکلا ایک ایک ہفتے تیاری کرتے ہیں اور یہاں ان کو کہا جا رہا ہے کہ جرح ایک ہی دن بلکہ چند گھنٹوں میں مکمل کریں۔ ایک ہی دن میں تمام گواہوں پر جرح کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ یہ مثالیں قابل فخر نہیں ہیں۔‘‘

Published: undefined

پاکستان میں کئی ناقدین یہ دعوی کرتے ہیں کہ عدالتیں ملک کے طاقت ور حقلوں کے زیر اثر ہیں۔ اسی ليے وہ نواز شریف اور دوسرے اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست دانوں کے خلاف فیصلے کر رہی ہیں یا انہیں انصاف فراہم نہیں کر رہیں۔ تاہم کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف کی طرف عدالتوں کا رویہ نرم ہے۔ معروف تجزیہ نگار جنرل امجد شیعب کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دینے سے ملک کے کئی حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ عدالتوں کا رویہ ن لیگ کی طرف نرم ہے۔ ''میرے خیال میں جہاں تک سپریم کورٹ کا تعلق ہے، تو وہ غیر جانب دار ہے لیکن اگر آپ لاہور ہائی کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور نیب کورٹ کے جج ارشد ملک کے رویے کو دیکھیں تو اس سے لگتا ہے کہ عدالتیں ن لیگ کے مقدمات کو مختلف طریقے سے دیکھ رہی ہیں۔ ماضی میں اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کو عدالت نے رد کر دیا۔ حدیبیہ پیپر کیس میں نواز شریف کو ریلیف دی گئی۔ حمزہ شہاز کو بھی ضمانت دے دی گئی۔ چھٹی والے دن نہ صرف عدالتیں لگ رہی ہیں بلکہ ضمانتیں بھی منظور کی جارہی ہیں۔ یہ پوچھا جا رہا ہے کہ کیا نواز شریف کی زندگی کی گارنٹی دی جا سکتی ہے۔ کون سی عدالتوں میں ایسی گارنٹی مانگی جاتی ہے؟ لوگوں کے ذہنوں میں اس طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں اور پورے ملک میں اس تاثر پر بحث ہو رہی ہے، جو میرے خیال میں آگے بھی چلے گی۔‘‘

Published: undefined

ان کا کہنا تھا کہ ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار کو بدلنا چاہیے تاکہ یہ تاثر نہ پيدا ہو کہ جج سیاست پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ''اب آپ جسٹس شوکت صدیقی کو دیکھ لیں کہ انہوں نے صرف الیکشن سے دو دن پہلے یہ بیان دیا کہ ججوں پر دباو ڈالا جاتا ہے اور اداروں کا نام بھی لیا۔ ان کا یہ بیان عوامی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے مترادف تھا۔ انہو٘ں نے رائے عامہ کو ن لیگ کے حق میں کرنے کی کوشش کی۔ اگر کوئی مسئلہ تھا بھی، تو انہوں نے چیف جسٹس کو فوراً مطلع کیوں نہیں کیا؟‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined