خبریں

ایرانی پراکسی جنگ کے پاکستان اور افغانستان پر ممکنہ اثرات

ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت سے خطے میں کشیدگی بڑھی ہے۔ افغان اور پاکستانی حکومتوں کی طرف سے واشنگٹن اور تہران سے کشیدگی کو ختم کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔

ایرانی پراکسی جنگ کے پاکستان اور افغانستان پر ممکنہ اثرات
ایرانی پراکسی جنگ کے پاکستان اور افغانستان پر ممکنہ اثرات 

امریکا اور ایران کی جنگ خطے میں نہ ختم ہونے والی لڑائی اور تشدد کا سبب بن سکتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تہران میں سخت گیر شیعہ حکومت واشنگٹن کا براہ راست مقابلہ کرنے سکت نہیں رکھتی۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی ممکنہ جنگ کی صورت میں مشرق وسطی کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی امریکی مفادات کوگزند پہنچنے کا خطرہ ہے۔

Published: undefined

مشرق وسطی میں سعودی عرب ایک طویل عرصے سے امریکا کا حلیف ہے۔ ایران اور سعودی عرب پہلے ہی خطے میں پراکسی وار میں مصروف ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ایرانی حکومت نے بھی افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ اور خاص طور پر حال ہی میں طالبان کے ساتھ بات چیت کے نتیجے میں ایران کے افغانستان میں اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔

Published: undefined

روایتی طور پر دیکھا جائے تو طالبان کمانڈروں نے ریاض حکومت کے ساتھ صرف اس وجہ سے اتحاد کیا تھا کیونکہ وہ سعودی شاہی خاندان کی طرح خود بھی سنی وہابی عقائد رکھتے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں کے دوران اس شدت پسند اسلامی گروپ پر پاکستان اور سعودی عرب دونوں کے اثر و رسوخ میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔ لیکن خطے میں ایرانی مداخلت پر دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پیچیدہ معاملات کا سامنا ہو سکتا ہے جو پہلے ہی جنگ زدہ ملک سے رخصت ہونے کے لیے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کو حتمی شکل دینے کی کوششوں میں ہے۔ کیا طالبان ، ایران کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں؟

Published: undefined

افغان حکومت نے گزشتہ جمعے کو کہا تھا کہ وہ سلیمانی کی ہلاکت کے بعد خطے میں تشدد میں ممکنہ اضافے پر تشویش کا شکار ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا،’’ہم امید کرتے ہیں کہ فریقین اپنے تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کریں گے۔ ہم امریکا اور اپنے بڑے پڑوسی ملک اسلامی جمہوریہ ایران، جس کی ہماری مشترکہ زبان ہے، ہماری مذہبی، تاریخی اور ثقافتی اقدار ایک جیسی ہیں، سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تنازعے کو مزید شدید ہونے نہ دیں۔ ہم نے ان دونوں سے خطے میں تنازعات کو روکنے کی بات کی ہے۔‘‘

Published: undefined

یہ بیان کابل کے اس مخمصے کی غمازی کرتا ہے کہ نہ تو وہ امریکا کو ناراض کرنا چاہتا ہے نہ ہی اسے ایران کے ساتھ افغانستان کی طویل سرحد پر ایک اور پر تشدد تنازعے کی ضرورت ہے۔ اور اب ممکن ہے کہ سلیمانی کا قتل طالبان کے ساتھ امن عمل کو سبوتاژ کرنے کا سبب بنے۔

Published: undefined

افغانستان کے متعدد شدت پسند گروپوں میں سلیمانی کے حمایتی موجود ہیں، جو امریکا کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔ ایران اس قابل نہیں ہے کہ وہ براہ راست امریکی اہداف کو نشانہ بنائے۔ یہ کام صرف ایک ہی قوت کر سکتی ہے اور وہ ہے طالبان۔ ایک ریٹائر افغان جنرل عتیق اللہ امر خیل نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے شام میں صدر بشار الاسد کے حق میں لڑنے کے لیے افغانی شہریوں کو بھرتی کرنے میں سلیمانی کے مبینہ کردار کی بھی بات کی۔ سلامتی امور کے اس ماہر نے مزید کہا کہ موجودہ صورتحال جاری امن عمل اور افغانستان میں سکیورٹی کی مجموعی صورتحال پر منفی اثر ڈالے گی۔

Published: undefined

افغانستان کے قومی خفیہ ادارے این ایس ڈی کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل کا کہنا تھا کہ سلیمانی ایران کے لیے ایک اثاثہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس خطے کے لیے خطرہ بھی تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ سلیمانی پراکسی جنگوں کے ماہر بھی تھے،’’متعدد علاقائی عسکریت پسند گروپوں کی تشکیل کا سہرا انہی کے سر جاتا ہے۔ ان کی موت سے خطے میں تناؤ بڑھے گا۔ اگر افغان حکومت ایک غیر جانبدار پوزیشن برقرار رکھنے میں ناکام رہی تو موجودہ حالات افغانستان کو مزید عدم استحکام سے دوچار کر دیں گے۔‘‘

Published: undefined

پاکستان خطے کا ایک اور اہم کھلاڑی ہے اور دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے، جس نے سن 1996 میں کابل میں طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اب بھی شورش پسند گروپوں پر کافی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ امریکا اور طالبان کے مابین معاہدے میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ امریکا جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد خطے میں جنم لینے والی نئی صورتحال کے تناظر میں اسلام آباد کی اہمیت سے بھی واقف ہے۔ تبھی اس ہلاکت کے فوری بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کیا تھا۔ افغانستان کے بر عکس پاکستان ایک طاقتور اور تربیت یافتہ فوج کا حامل ملک ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو امید ہے کہ پاکستانی جرنیل طالبان کو ایران کا ساتھ دینے سے روکنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے۔ پاکستان اور ایران کے مابین عدم اعتماد کی وجہ سے باہمی تعلقات کئی سالوں سے تناؤ کا شکار ہیں۔ اسلام آباد اور تہران نے ایک دوسرے پر علیحدگی پسند گروہوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کیاہے۔

Published: undefined

پاکستان کے سیاستدان میر حاصل بزنجو نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران پر امریکا کو ترجیح دینا پاکستان کے لیے ایک انتہائی سخت فیصلہ ہو گا،’’پاکستان میں شیعہ فرقہ کافی بڑی تعداد میں موجود ہے اگر پاکستان نے واشنگٹن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھے گی۔ ایک ہی وقت میں پاکستان امریکا اور سعودی عرب کا مخالف ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی معیشت کا ان ہی دونوں مما لک پر انحصار ہے۔‘‘ تجزیہ کار نجم الدین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے آزادانہ اور خود مختارانہ نقطہ نظر سب سے بہتر ہو گا۔ لیکن یہ خوف اپنی جگہ کہ شاید حکومت اس تنازعے میں غیر جانبدار نہ رہ سکے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined