خبریں

ایران نے عراق میں ’وسیع تر اثر و رسوخ‘ کیسے حاصل کیا؟

ایرانی خفیہ ایجنسی کے سینکڑوں خفیہ دستاویزات افشا کر دئے گئےہیں۔ ان خفیہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی انٹیلیجنس اور فوج کا عراق میں کردار کیا ہے اور تہران عراق میں کس قدر طاقت ور ہو چکا ہے۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا 

ایران کے اپنے ہمسایہ ملک عراق میں اثر و رسوخ کے حوالے سے خفیہ دستاویزات پر مشتمل ایک رپورٹ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں پیر کے روز شائع کی۔ اس رپورٹ کے مطابق اس اخبار نے تقریباﹰ سات سو صفحات پر مشتمل خفیہ معلومات کا جائزہ لیا، جن میں سے زیادہ تر سن دو ہزار چودہ سے لے کر سن دو ہزار پندرہ تک کے درمیان ایرانی وزارت انٹیلیجنس اینڈ سکیورٹی کی جانب سے تیار کی گئی تھیں۔

Published: undefined

اخبار نے یہ خفیہ دستاویزات فراہم کرنے والے شخص کا نام اور شناخت ظاہر نہیں کی۔ اس نامعلوم شخص نے نیو یارک ٹائمز کے صحافیوں سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ اس شخص کا کہنا تھا، ''میں صرف دنیا کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ایران میرے ملک عراق کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔‘‘

Published: undefined

عراق کے ایران اور امریکا دونوں کے ساتھ ہی قریبی اور پیچیدہ روابط ہیں۔ ایران عراق میں زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ امریکا خطے میں ایران کے کردار کو محدود بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے، ''خفیہ دستاویزات سے اس بات کا تفصیلی اندازہ ہوتا ہے کہ تہران نے کتنے جارحانہ انداز میں خود کو عراقی اُمور میں شامل کرنے کے لیے کام کیا۔‘‘ ان رپورٹوں میں جنرل قاسم سلیمانی کے انوکھے کردار پر بھی بات کی گئی ہے۔

Published: undefined

رپورٹوں کے مطابق جنرل سلیمانی ایرانی پاسداران انقلاب کی ایلیٹ 'قدس فورس‘ کے سربراہ ہیں اور عراق میں سیاسی بحران کے دوران انہوں نے تواتر سے عراق کے دورے کرتے ہوئے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ایران کی قدس فورس بیرون ملک خفیہ کارروائیوں کی ذمہ دار ملکی ایجنسی ہے۔

Published: undefined

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ابھی حالیہ ہفتوں میں بھی جنرل سلیمانی نے بغداد اور نجف میں ان اجلاسوں کی سربراہی کی، جو عراق میں جاری احتجاجی مظاہروں سے متعلق تھے اور جن میں عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کے لیے ملکی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

Published: undefined

ایک خفیہ ایرانی رپورٹ کے مطابق عادل عبدالمہدی سن دو ہزار چودہ میں عراق کے وزیر تیل تھے اور اس دوران ان کے تہران حکومت کے ساتھ 'خصوصی تعلقات‘ تھے۔ عراقی وزیر اعظم کے دفتر نے اس رپورٹ پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

Published: undefined

ان رپورٹوں میں عراق کے سابق وزرائے اعظم حیدر العبادی اور ابراہیم الجعفری کے ساتھ ساتھ سابق پارلیمانی اسپیکر سلیم الجبوری کے ایران کے ساتھ خصوصی تعلقات کا حوالہ بھی ملتا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کی اس رپورٹ کے مطابق تہران حکومت کے اثر و رسوخ میں اضافہ سن دو ہزار گیارہ کے بعد تیزی سے ہوا، کیوں کہ تب امریکی فوجی عراق چھوڑ گئے تھے۔ تب امریکی خفیہ ایجنسی کے سینکڑوں اہلکاروں کو ملازمت سے فارغ بھی کر دیا گیا تھا اور انہوں نے پیسہ کمانے کے لیے سی آئی اے کے آپریشنز سے متعلق خفیہ معلومات ایران کو فروخت کرنا شروع کر دی تھیں۔

Published: undefined

ایک مرتبہ عراقی ملٹری انٹیلیجنس کے ایک افسر نے ایرانی خفیہ اہلکاروں سے ملاقات کے لیے بغداد سے کربلا تک کا سفر بھی کیا۔ اس اہلکار نے تین گھنٹے تک ایک میٹنگ کی اور اپنے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل حاتم المکسوسی کا یہ پیغام پہنچایا، ''عراقی فوج کی ساری انٹیلیجنس کو اپنا ہی سمجھیں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined