قومی خبریں

تبلیغی جماعت کے تعلق سے فرضی خبر چلانے پر ’زی نیوز‘ نے معافی مانگی!

زی نیوز نے ارونا چل پردیش میں کورونا سے تبلیغی جماعت کے 11 متاثرین کی خبر کو انسانی بھول قرار دیتے ہوئے معافی طلب کی ہے۔ جمعیۃ علمائے ہند نے زی نیوز کے اسکرین شاٹ جاری کرکے یہ اطلای دی ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

نئی دہلی: زی نیوز نے ارونا چل پردیش میں کورونا سے تبلیغی جماعت کے 11 متاثرین کی خبر کو انسانی بھول قرار دیتے ہوئے معافی طلب کی ہے۔ جمعیۃ علمائے ہند نے زی نیوز کے اسکرین شاٹ جاری کرکے یہ اطلای دی ہے۔

جمعیۃ علما ہند کے جاری کردہ اسکرین شاٹ میں لکھا گیا ”ارونا چل پردیش میں کورونا متاثر صرف ایک مریض کی تصدیق ہوئی ہے۔ انسانی بھول سے زی نیوز پر ارونا چل پردیش میں تبلیغی جماعت کے 11 لوگوں کے متاثر ہونے کی خبر دکھائی گئی۔ اس غلطی کا ہمیں افسوس ہے“۔

Published: undefined

ارونا چل پردیش میں سرکاری طور پر صرف ایک کورونا مثبت ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جب کہ زی نیوز نے تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کے لئے 11 تبلیغی جماعت کے لوگوں کے کوورنا سے متاثر ہونے کی خبر چلائی تھی۔ جمعیۃ علمائے ہند کی قانونی کارروائی کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد زی نیوز نے معافی مانگی ہے۔

Published: undefined

واضح رہے کہ جمعیۃ علما کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی نے 7 اپریل کو تبلیغی جماعت کے خلاف مہم چلانے والے اور اس سے متعلق جھوٹی خبر چلانے والے ٹیلی ویژن نیوز چینلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس کے بعد زی نیوز کا یہ معذرت نامہ سامنے آیا ہے۔

Published: undefined

خیال رہے کہ زی نیوز نے تبلیغی جماعت کے خلاف ایک مہم چھیڑ رکھی تھی اور مولانا ارشد مدنی کے بار بار اپیل کے باوجود زی نیوز سمیت متعدد چینلوں نے اپنی مہم جاری رکھی۔ جس کے بعد مولانا نے قانونی قدم اٹھاتے ہوئے متعدد نیوز چینلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کردیا جو سماعت کے لئے منظور کرلیا گیا ہے۔

گزشتہ روز جمعیۃ علماء ہند کی امدادی قانونی کمیٹی کی طرف سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی تھی جسے سماعت کے لئے منظور کر لیا گیا، اس عرضی میں کہا گیا ہے کہ میڈیا مسلمانوں اور تبلیغی مرکز کو لیکر انتہائی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کر رہا ہے اس کی متعصبانہ رپورٹنگ کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے۔ اور اس کے کوریج پر روک لگانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے اس کے علاوہ شوشل میڈیا پر فرضی خبریں پھیلانے پر کارروائی کے لئے حکم دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں میڈیا اداروں کے ذریعہ مسلمانوں اور تبلیغی جماعت کو لے کر ہونے والی رپورٹنگ سے فرقہ واریت پھیل رہی ہے۔

Published: undefined

اپنی عرضی میں جمعیۃ علمائے ہند نے میڈیا کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔تبلیغی جماعت کے خلاف ہورہے میڈیا ٹرائل پر ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے پٹیشن دائر کی ہے۔عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نظام الدین مرکز کو میڈیا فرقہ وارانہ رخ دے رہا ہے، درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تبلیغی جماعت سے متعلق پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹ نے“پوری مسلم قوم کو نشانہ بنایا اور مسلمانوں کی توہین کی گئی اور ان کی دل آزاری کی گئی۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ میڈیا کے ذریعے جو رویہ اختیار کیا گیا اس سے مسلمانوں کی آزادی اور ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے '' جو دستور آئین میں دیئے گئے رائٹ ٹو لائف کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔

Published: undefined

درخواست میں کہا گیا ہے کہ بیشتر اطلاعات میں ''کورونا جہاد''، ''کورونا دہشت گردی'' یا ''اسلامی بنیاد پرستی'' جیسے جملے کا استعمال کرتے ہوئے غلط بیانی کی گئی ہے۔ اس پٹیشن میں ''متعدد سوشل میڈیا پوسٹس'' کو بھی درج کیا گیا ہے جس میں ''غلط طور پر کوویڈ 19 کو پھیلانے کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے''۔ اس کے ساتھ ہی جھوٹی اور جعلی ویڈیوز کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ عرضداشت میں کہا گیا ہے کہ نظام الدین واقعے کی کوریج کرتے ہوئے ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔جس نے مسلمانوں کے معاملے میں دستور ہند کی دفعہ آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔عرضداشت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعے 31 مارچ کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس میں ''میڈیا کو ہدایت دی گئی تھی میڈیا ذمہ داری کے ساتھ رپورٹنگ کریں اور غیر تصدیق شدہ خبریں شائع اور نشر نہ کریں۔

Published: undefined

جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سیدا رشدمدنی نے حالیہ دنوں میں میڈیا بالخصوص الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف ہورہی مسلسل منفی رپورٹنگ پر اپنے گہرے دکھ کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہماری تمام تردرخواستوں اور مطالبوں کے باوجود ٹی وی چینلوں نے مسلمانوں کے خلاف جھوٹ اور گمراہ کن پروپیگنڈے کا سلسلہ بند نہیں کیا اس کو لیکر ہم حکومت سے بھی یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ نفرت بونے والے اور مسلمانوں کی شبیہ کو داغدارکرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، مگر افسوس ہمارے مطالبہ کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی ہم اس سے پہلے بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ میڈیا کا ایک بڑاحلقہ اپنی رپورٹنگ کے ذریعہ معاشرے میں جو زہر بورہا ہے وہ کوروناوائرس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے،انہوں نے یہ بھی کہا کہ حال ہی میں تبلیغی مرکز کو لیکر میڈیا نے تو اخلاق وقانون کی تمام حدیں توڑدی ہیں اب اس کی وجہ سے اکثریت کے ذہنوں میں یہ گرہ مضبوط ہوگئی ہے کہ کورونا وائرس مسلمانوں کے ذریعہ پھیلائی ہوئی کوئی بیماری ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined