کرناٹک ہائی کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے حجاب کیس کی سماعت کے بعد کہا ہے کہ عدالت کے سامنے سوال یہ نہیں ہے کہ کیا کلاس میں حجاب پہننا مسلم طالبات کے بنیادی حق کا حصہ ہے؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اسلام کے ضروری مذہبی عمل کا حصہ ہے؟
Published: undefined
ہائی کورٹ کی بنچ نے کہا، ’’یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارا ملک کثیر ثقافتوں، مذاہب اور کئی زبانوں کا ملک ہے۔ ایک سیکولر قوم ہونے کے ناطے اس کی کوئی مذہبی شناخت نہیں ہے۔ ہر شہری کو اپنی پسند کے کسی بھی مذہب کی پیروی کرنے کا حق ہے۔ یہ سچ ہے۔
Published: undefined
عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ اس طرح کا حق تاہم انتہائی حساس ہے۔ ان پر ہندوستانی آئین کے تحت کچھ منطقی بنیادوں پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ کیا کلاس میں حجاب پہننا آئینی ضمانتوں کی روشنی میں اسلام کے ضروری مذہبی عمل کا ایک حصہ ہے، اس کی مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے۔ عدالت کے بیان کی ایک کاپی اس نیوز ایجنسی کے پاس ہے۔
Published: undefined
عدالت نے تسلیم کیا کہ کسی بھی شخص کو مذہب، ثقافت یا کسی اور بنیاد پر ایسی سرگرمیاں کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جس سے امن خراب ہو۔ عدالت نے کہا کہ طلباء کے مفاد میں ہے کہ وہ کلاسوں میں واپس جائیں اور احتجاج ختم کریں۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ تعلیمی سیشن ختم ہونے جا رہا ہے۔ عدالت امید کرتی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اور عوام امن برقرار رکھیں گے۔
Published: undefined
موجودہ صورتحال کے پیش نظر، عدالت نے ریاستی حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو تعلیمی ادارے دوبارہ کھولنے اور طلباء کو جلد از جلد کلاسوں میں واپس لوٹنے کا حکم دیا ہے۔
Published: undefined
ان تمام درخواستوں پر غور کرنے تک، عدالت نے تمام طالب علموں کوان کے مذہب یا عقیدے کی پرواہ کئے بغیر، بھگوا شال، اسکارف، حجاب اورمذہبی جھنڈے کے کلاس میں پہننے پر روک لگادی ہے۔عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ حکم ایسے اداروں تک ہی محدود ہے جہاں کالج کی ترقیاتی کمیٹیوں نے اسٹوڈنٹ ڈریس کوڈ یا یونیفارم متعین کررکھا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر سوشل میڈیا