
سپریم کورٹ آف انڈیا / آئی اے این ایس
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل کے روز روہنگیا افراد کی حراست اور ملک بدری کے عمل سے متعلق ایک درخواست پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ عدالت ایسے معاملات میں قانون کے دائرے کو بے جا نہیں پھیلا سکتی۔ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس سوریہ کانت کی سربراہی والی بنچ نے سماعت کے دوران اس مسئلے کو نہایت حساس قرار دیتے ہوئے مرکز کو نوٹس جاری کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ملک بدری کی کارروائی صرف اور صرف مقررہ قانونی طریقہ کار کے مطابق ہی کی جا سکتی ہے۔
Published: undefined
درخواست گزار کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ دہلی پولیس نے مئی میں چند روہنگیا افراد کو حراست میں لیا تھا، جس کے بعد ان کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اگر حکومت انہیں ملک بدر کرنا چاہتی ہے تو اس عمل کو شفاف، منصفانہ اور قانونی تقاضوں کے مطابق انجام دیا جائے۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ وہ کوئی اضافی حق یا خصوصی رعایت نہیں مانگ رہے، بلکہ محض اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حکومت اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کی پابندی کرے۔
Published: undefined
سماعت کے دوران چیف جسٹس سوریہ کانت نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’کیا ہم دراندازوں کے لیے سرخ قالین بچھا دیں؟ وہ سرحد پار کر کے ملک میں داخل ہوں اور پھر رہائش، خوراک اور بچوں کی تعلیم جیسے حقوق کا مطالبہ کریں؟‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ شمالی سرحد حساس ہے اور موجودہ حالات کسی سے پوشیدہ نہیں، اس لیے عدالت کو غیر قانونی داخلے کے معاملات میں بے حد احتیاط برتنی ہوگی۔
Published: undefined
عدالت عظمیٰ نے یہ بھی واضح کیا کہ ہیبیس کورپس یعنی جسمانی حراست میں موجود فرد کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کی درخواست اس نوعیت کے معاملے میں کوئی مؤثر طریقہ نہیں، کیونکہ یہاں بنیادی مسئلہ غیر قانونی داخلہ اور ملک بدری کے قانونی مراحل کا ہے، نہ کہ کسی شخص کو آزاد کرانے کا۔ بنچ نے کہا کہ درخواست گزار جب تک واضح قانونی بنیاد پیش نہیں کرتے، عدالت نوٹس جاری نہیں کر سکتی۔
Published: undefined
سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا غیر قانونی طور پر ملک میں گھسنے والے افراد کو ’پناہ گزین‘ کا درجہ دیا جا سکتا ہے؟ عدالت نے کہا کہ کسی بھی ملک میں داخلہ کا حق قانونی عمل سے مشروط ہوتا ہے اور اسے دراندازی کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے معاملے کو 16 دسمبر کی اگلی تاریخ کے لیے رکھا ہے مگر واضح کر دیا کہ ملک بدری کا کوئی بھی فیصلہ صرف قانونی دائرے میں رہ کر ہی ممکن ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined