قومی خبریں

شاہین باغ خاتون مظاہرہ: قیادت سے محروم لیکن دماغ سے نہیں

گروپوں میں ایک رائے نہ ہونے کی وجہ سے فیصلے لینے میں دشواری ضرور ہو رہی ہے لیکن تمام اختلافات کے باوجود ہر کوئی اس بات پر ڈٹا ہوا ہے کہ وہ ’کالے قانون‘ کو واپس کروائے بغیر شاہین باغ سے نہیں ہٹے گا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

شاہین باغ میں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف جاری احتجاج کو دو ماہ ہو چکے ہیں۔ خاتون مظاہرین کی جانب سے ایک سُر میں مسلسل یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس قانون کو واپس لیا جائے لیکن اپنے ارادوں پر اٹل اور جوش سے لبریز ان مظاہرین کی قیادت کرنے والا کوئی نہیں ہے اور اکثر ان میں اختلافات بھی نظر آ جاتے ہیں، حالاننکہ اختلافات کا ہونا ایک فطری بات ہے۔

Published: 21 Feb 2020, 8:30 PM IST

شاہین باغ مظاہرین میں آئے دن اختلاف رائے نظر آتی ہے کہ فلاں کام تم نے کس سے پوچھ کر کیا یا فلاں قدم تم نے کیوں اٹھایا؟ جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں ویسے ویسے مظاہرین کی قیادت کا یہ بحران گہراتا جا رہا ہے۔ آج شاہین باغ کی صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی کبھی بھی اسٹیج پر آ کر کوئی اعلان کر دیتا ہے اور پھر بعد میں کوئی اور اسٹیج پر آتا ہے اور اس اعلان کو مسترد کر دیتا ہے۔ یہ اختلافات اس وقت بھی نظر آئے جب سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کئے گئے مذاکرات کار سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن مظاہرین سے بات کرنے کے لئے وہاں پہنچے۔ ان اختلافات کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذاکرات کار جو مظاہرین سے گفتگو کر کے بہت زیادہ متاثر تھے انہوں نے خود کہا کہ وہ یہاں دوبارہ نہیں آ سکتے کیونکہ یہاں بات کرنے کا ماحول نہیں ہے!

Published: 21 Feb 2020, 8:30 PM IST

میڈیا کے سامنے کون بیان دیگا اس کو لے کر بھی کھینچ تان صاف نظر آتی ہے۔ اگر کوئی شخص میڈیا کے سامنے آ کر کچھ بولتا ہے تو دوسرا شخص میڈیا کے سامنے ہی اسی بات کی تردید کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے کوئی معلومات واضح تو کیا ہو، الٹے لوگ الجھن میں پڑ رہے ہیں۔

Published: 21 Feb 2020, 8:30 PM IST

شاہین باغ میں ’دادیوں‘ کے نام پر سب سے زیادہ سیاست نظر آ رہی ہے۔ یہ وہ عمر رسیدہ خواتین ہیں جو مظاہرہ کا چہرہ بن چکی ہیں اور انہیں اب ’دبنگ دادیوں‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ جب کوئی بات نہیں سنتا یا کسی کو اپنا موقف پیش کرنا ہوتا ہے تو وہ بس دادی کے منہ سے اپنی بات کو کہلوا دیتا ہے، اس سے اس کی بات بڑی ہو جاتی ہے۔ وہیں کوئی دوسرا شخص دادی سے اسی بات کی تردید کروا دیتا ہے۔

Published: 21 Feb 2020, 8:30 PM IST

شاہین باغ میں ایک سے زیادہ گروپ تشکیل ہوتے نظر آ رہے ہیں اور ہر ایک گروپ کی کوئی نہ کوئی سربراہی بھی کرتا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر گروہ کے لوگ منتظمین بنے ہوئے ہیں اس کی وجہ سے کچھ بھی طے نہیں ہو پا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں گروپوں میں ان بن ہو جاتی ہے اور فیصلے لینے میں دشواری ہوتی ہے لیکن ان تمام اختلافات کے باوجود ہر کوئی اس بات پر ڈٹا ہوا ہے کہ وہ ’کالے قانون‘ کو واپس کروائے بغیر شاہین باغ سے نہیں ہٹے گا۔

Published: 21 Feb 2020, 8:30 PM IST

شاہین باغ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہو رہے مظاہروں میں مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں شرکت کرنے والے مظاہرین کے پاس جو دماغ ہے اور جو اپنی بات رکھنے کا انداز ہے وہ قابل ستائش ہے اور اسی لئے اس مظاہرہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ’مظاہرہ قیادت سے ضرور محروم ہے لیکن دماغ سے نہیں۔‘

Published: 21 Feb 2020, 8:30 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 21 Feb 2020, 8:30 PM IST