سپریم کورٹ آف انڈیا /آئی اے این ایس
رانچی: سپریم کورٹ نے جھارکھنڈ کے بوکارو میں درج ایک مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کسی شخص کو ’میاں-تیاں‘ یا ’پاکستانی‘ کہنا ناپسندیدہ اور غیر مہذب ہے لیکن اسے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے جرم کے دائرے میں نہیں لایا جا سکتا۔ عدالت نے اس معاملے میں درج ایف آئی آر کو کالعدم قرار دے دیا۔
Published: undefined
یہ مقدمہ 2020 میں ایک مسلم سرکاری ملازم نے درج کرایا تھا، جس نے الزام لگایا تھا کہ بحث کے دوران اسے اس کے مذہب کی بنیاد پر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ متاثرہ شخص، جو ایک اردو مترجم اور کلرک کے طور پر کام کر رہا تھا، نے کہا کہ وہ آر ٹی آئی درخواست کے جواب کے سلسلے میں ایک دفتر گیا تھا، جہاں ایک 80 سالہ شخص نے اسے بار بار ’میاں-تیاں‘ اور ’پاکستانی‘ کہہ کر اشتعال دلانے کی کوشش کی۔
Published: undefined
پولیس نے اس واقعے میں ملزم کے خلاف تعزیراتِ ہند کی دفعہ 353 (سرکاری ملازم کو زبردستی کام سے روکنا)، 504 (اشتعال انگیزی) اور 298 (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی نیت سے کچھ کہنا) کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ نچلی عدالت اور جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے ملزم کو کوئی راحت نہیں دی، جس کے بعد معاملہ سپریم کورٹ پہنچا۔
Published: undefined
سپریم کورٹ کی جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس ستیش چندر شرما پر مشتمل بنچ نے کہا کہ اگرچہ ایسے الفاظ کا استعمال غیر شائستہ ہے لیکن اس سے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی نیت ثابت نہیں ہوتی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے میں نہ تو کسی پر زور زبردستی کی گئی اور نہ ہی کسی طرح کی امن و امان کی خرابی دیکھنے کو ملی، اس لیے ملزم پر لگائے گئے الزامات درست نہیں ہیں۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد اس معاملے میں درج ایف آئی آر منسوخ کر دی گئی اور ملزم کو مقدمے سے بری کر دیا گیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined